Main Isay Likhnay Ki Jurrat Se Mehroom Hoon - Nusrat Javeed


میں اسے لکھنے کی جرات سے محروم ہوں 
نصرت جاوید 

بنیادی طورپر یہ جمہوری نظام ہی کی ایک ”کرامت“ تھی کہ نواز شریف 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم بن گئے۔ اس کرامت سے فیض یاب ہونے کے بعد یہ ان کی تاریخی اور اخلاقی ذمہ داری تھی کہ اس نظام کو مزید توانائی مہیا کرنے کے لئے دن رات ایک کردیتے۔ خلق خدا کو یقین دلاتے کہ اجتماعی دانش کی بدولت اس ملک میں امن وسکون کی فضاءبرقرار رکھتے ہوئے اسے ترقی اورخوش حالی کی راہ پر چلانا صرف جمہوری نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود ہی نہیں۔ انتہائی دُکھ کے ساتھ میں یہ بات کہنے پر خود کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ نواز شریف یہ تاریخی فریضہ سرانجام دینے میں قطعاََ ناکام رہے ہیں۔
نواز شریف کی اس ضمن میں ناکامی کو وسیع تر تناظر میں بیان کرنے کے بجائے میں اس کالم میں صرف بطور ایک صحافی اپنے پیشے پر توجہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں نے بہت چاﺅ اور تقریباََ دیوانگی جیسے جذبے کے تحت کل وقتی صحافی ہونے کا فیصلہ کیا تو چند ہی برسوں بعد جنرل ضیاءکا مارشل لاءنافذ ہوگیا۔
اس مارشل لاءکے نفاذ کے چند ہی ماہ بعد کڑی سنسرشپ نافذ ہوگئی۔ بہت محنت کے بعد مجھ ایسے رپورٹر کوئی خبر ڈھونڈتے۔اس خبر کو بہت لگن سے لکھ کر نیوزڈیسک کو دیا جاتا تو وہاں موجود ایڈیٹرز ہمارے لکھے ہر فقرے کو انتہائی توجہ سے پڑھتے۔ ایسا کرتے ہوئے زیادہ توجہ اس امر پر مرکوز ہوتی کہ ہم نے خبر لکھتے ہوئے قاری کو اپنی بات پوری طرح سمجھائی ہے یا نہیں۔اپنی بات کوسمجھانے کے لئے الفاظ کا چناﺅ بھی معیاری ہے یا نہیں۔
رپورٹروں اور ایڈیٹروں کی اس مشترکہ محنت کے بعد بھی ہماری خبریں محکمہ اطلاعات کو بھیجنا ضروری تھا۔ وہاں بیٹھے افسران یہ فیصلہ کرتے کہ کس خبر کو چھپنے کی اجازت دی جاسکتی ہے یا نہیں۔کونسی خبر اخبار کے کونسے صفحے پر کس انداز میں شائع ہوگی والا فیصلہ- جو صرف اور صرف ایک پیشہ ور مدیر کا حق اور اختیار ہونا چاہیے تھا-محکمہ اطلاعات میں بیٹھے افسروں کو منتقل ہوچکا تھا۔ اوسطاََ میری لکھی خبروں میں سے تقریباََ 60 فی صد ہی اخبارکے کسی صفحے میں چھپ پاتیں۔ میری لکھی بے تحاشہ خبروں کو وہ Display بھی نصیب نہیں ہوا کرتا تھا جو پیشہ وارانہ میرٹ کی بنیاد پر ان کا حق تھا۔
مضحکہ خیز حد تک قلیل تنخواہ کے لئے ،جو اکثر باقاعدگی سے نصیب بھی نہیں ہوتی تھی،خبریں ڈھونڈنے، انہیں لکھنے اور سنسرکی درازدستی سے محفوظ رکھنے کی جاں گسل مشقت کے باوجود میں اپنے شعبے سے کبھی مایوس نہیں ہوا تھا۔ دل ودماغ میں ہمیشہ امید کے دئے روشن رہے۔ اپنی کم مائیگی اور بے بسی پر شرمندگی کی بجائے طمانیت کا بھرپور احساس رہا۔
اب کئی برسوں سے سنا ہے کہ ہماری صحافت مکمل طورپر آزاد اور ضرورت سے زیادہ بے باک ہوچکی ہے۔مجھ سمیت نام نہاد Celebrity صحافیوں کی ایک مو¿ثر تعداد کا شمار اس ملک کے خوش حال طبقات میں بھی ہونا شروع ہوگیا ہے۔ صحافت مگر صحافت نہیں رہی۔ ایک دھندا بن چکی ہے اور کافی حد تک ایک قابلِ نفریں دھندا جہاں شہرت بھی دلوں میں اطمینان کا باعث نہیں رہی۔
لوگوں کو بہت پھنے خان دِکھتے ہم صحافی خوب جانتے ہیں کہ وہ کونسے مقامات ہیں جہاں ہم نے صحافتی پرواز کے ذریعے پہنچنے کی جسارت کی تو پر جل جائیں گے۔ صحافت کو ایک انتہائی تنگ دائرے میں محدود کرنے کی بنیادی وجہ یقینا اس ملک میں ٹی وی صحافت کا فروغ ہے جہاں Ratings کے لئے ہم کچھ بھی کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔ ”کچھ بھی کرنے کو تیار“ دِکھتے ہوئے بھی لیکن ہم مریضانہ حد تک ان ”حساس مقامات“ سے دور رہنے پر مجبور ہیںجہاں تک پہنچنے کی جسارت پروں کو جلاسکتی ہے۔ صحافیوں کومقبولیت اور Ratings کا غلام بنانے کا نواز شریف ہرگز ذمہ دار نہیں۔انہیں”اپنی اوقات“ تک محدود کرنے میں اہم ترین کردار مگر ان کی تیسری حکومت نے یقینا مجرمانہ حد تک ادا کیا ہے۔
جمہوری نظام کی طاقت کا اصل ماخذ ایک منتخب پارلیمان ہوا کرتی ہے۔2013ء کے انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئی پارلیمان کو مگر اس کے قیام کے صرف ایک سال بعد ہی اگست 2014ء میں 126 دنوں تک ”چوروں اور لٹیروں“ کی آماجگاہ کہہ کر پکارا گیا۔ اس پارلیمان کے قائد ہوتے ہوئے یہ نواز شریف کی ذمہ داری تھی کہ وہ ذاتی دلچسپی لے کر اس پارلیمان کی ساکھ اور وقار کو بچانے کے لئے دن رات ایک کردیتے۔ موصوف مگر ”جمہوریت اور پارلیمان“ کو بچانے کے نام پر درحقیقت اپنے عہدے کے تحفظ کی فکر میں مبتلا ہوگئے۔ اپنے عہدے کو بچانے کی فکر میں مبتلا وزیر اعظم مجھ ایسے دو ٹکے کے رپورٹروں کو حوصلہ اور توانائی فراہم کرہی نہیںسکتا۔وزیر اعظم کی طرح اب ہر صحافی بھی اپنی نوکری بچانے کی فکر میں مبتلا نظر آرہا ہے۔ نوکری بچانے کی اس فکر ہی نے ہمیں ”ذرائع“ کا محتاج بنادیا ہے۔خبر اب ہم ڈھونڈتے نہیں ہیں۔یہ Whatsapp کے ذریعے ہمارے سمارٹ فونز میں آجاتی ہے۔ہمیں بغیر کسی کاوش کے ملی اس ”خبر“ سے اس کے وصول ہوجانے کے بعد صرف کھیلنا ہوتا ہے۔ اس ”خبر“ کی تصدیق کے تردد کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ نہ ہی کوئی شخص اس ”خبر“ کا نشانہ بنے فرد کا ورژن حاصل کرنے کا بنیادی صحافتی فریضہ سرانجام دینے کو تیار ہوتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کے آخری تین دنوں میں ہماری ”صحافت“ لوگوں کو مسلسل یہ اطلاع دے رہی تھی کہ وزارتِ خارجہ کے مشیر طارق فاطمی نے ”اپنا منہ بند رکھنے“ کی بھاری قیمت وصول کرلی ہے۔ جس کے بعد وہ ملک چھوڑ کر امریکہ روانہ ہوگئے ہیں۔ یہ فاطمی صاحب مگر پیر کے دن وزیر اعظم ہاﺅس میں ہوئے ایک اجلاس میں موجود نظر آئے۔ ان کی یہ موجودگی بھی منگل کا سارا دن ہمیں ان کے استعفے کا انتظار کرنے میں مصروف رکھے رہی۔ ایک فلمی گیت والے ”سب کچھ لٹانے“ کے بعد ہماری وزیر اطلاعات منگل کی شام ٹی وی کیمروں پرنمودار ہوئیں اور صحافیوں کو ان کے فرائض یاد دلانے کی التجا کرتی رہیں۔
صحافیوں نے طارق فاطمی کے ضمن میں اپنا فرضہ ہرگز ادا نہیں کیا تھا۔سوال مگر یہ بھی اُٹھتا ہے کہ آیا وزیر اعظم کی میڈیا ٹیم نے بھی اس حوالے سے اپنا فرض ادا کیا؟۔ جواب اس سوال کا ایک چیخ کے ساتھ کہی ”نہیں“ میں ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب میرے پاس موجود ہے۔ اپنے پرجل جانے کے خوف سے مگر میں اسے لکھنے کی جرا¿ت سے محروم ہوں اور مجھے اس جرا¿ت سے بنیادی طورپر جمہوری نظام کی کرامت سے پاکستان کے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف نے محروم کیا ہے۔