جیا جنترا
عبد الحی
اُردو میں چڑیا گھر، انگریزی میں zoo اور عربی میں نہ جانے کیا کہتے ہیں اس سیر گاہ کو، بچپن ہی سے میرے دل میں جا نورں اور پرندوں کی محبت جنون کی حد تک ہے، بچپن سے آج تک گھر بھر کی مخالفت کے باوجودکوئی نہ کوئی پالتو جانور یا پرندہ میرے پاس ضرور ہوتا ہے، میرے بابا جی سے جب کبھی بھی میری ملاقات یا فون پہ بات ہوتی ہے تو وہ میرے بعد وہ ہمیشہ میرے جیاجنترا کا حال احوال پوچھتے ہیں ، پنچابی زبان میں پالتو جانورں کو جیا جنترا کہا جاتا ہے تو جناب ایسا پیدائشی جنون ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے میرا پسندیدہ ٹیلی ویژن چینل انیمل پلانٹ، ڈسکوری اور نیٹ جیو ہیں، کھانے میں مجھے چکن، مٹن، بیف پسند ہیں اور آوٹنگ میں صرف اور صرف چڑیا گھر جانا پسند کرتا ہوں، میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ اس جگہ کو چڑیا گھر کیوں کہتے ہیں؟ جبکہ اس میں بہت سارے جانور، پرندے اپنے گھر نما پنجروں میں ہوتے ہیں، میں نے بہت لوگوں سے یہ سوال کیا لیکن اب میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش ترک کر چکا ہوں، موجودہ صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ میری فیملی کا کوئی بچہ یا بڑا مجھے آؤٹنگ کے لیے نہیں کہتا ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ میری سوئی صرف ایک جگہ پر اٹک جاتی ہے کہ چلتے ہو تو چڑیا گھر کو چلئے۔
لاہور چڑیا گھر کی بات کی جائے تو دو مین انٹرنس ہیں ایک مال روڈ سائیڈ اور دوسرا گیٹ لارنس روڈ سائیڈ پہ آتاہے، مال روڈ گیٹ سے اگر اندر آیا جائے تو سب سے پہلے آپ کا سامناجانورں کے جس گروپ سے ہوتا ہے وہ بندر ہیں جب کبھی بھی میں فیملی یا خاص کر کے چھوٹے بچوں کے ساتھ ہوتا ہوں تو میری پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ بندروں کے پنجروں کو بائی پاس کیا جائے اور جلدی آگے بڑھا جائے یہ بندروں کا سیکشن چڑیا گھر میں وہ واحد ایریا ہے جہاں میرے خیال میں 18+ کا بورڈ نصب ہونا چاہیے یا پھر انتظامیہ کو بندروں کی پرائیوسی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، میرے پسندیدہ جانورں میں مگر مچھ کا نمبر بھی ٹاپ ٹین میں آتا ہے، میں درجنوں دفعہ چڑیا گھر جا چکا ہوں لیکن قسم والی بات ہے جو میں نے کبھی وہاں مگر مچھ کو ہلتے جلتے یا چلتے پھرتے دیکھا ہو ،بے شمار دفعہ میں نے لوگوں کو وہاں کے مگر مچھوں کو مصنوعی قرار دیتے سنا ہے اگر میرا علم میرے شوق کی وجہ سے زیادہ نہ ہوتا تو یقینن میں بھی لوگوں کی باتوں سے اتفاق کر چکا ہوتا۔
میری ہوش میں لاہور چڑیا گھر میں دو ہاتھی رہے ہیں ایک پرانی ہتھنی جس کا نام لکی ایرانی تھا اور اُس کی موت کے بعد موجودہ ہتھنی جو سوزی کے نام سے جانی جاتی ہے ایک مشہورکہاوت ہے کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مردہ سوا لکھ کا، ویسے قیمت سے تو یہ بھلے وقتوں کی مثال لگتی ہے کیونکہ اب تو کچھ خاص قسم کے پرندے اور اچھے حلال جانور لاکھوں مالیت کے ہوتے ہیں میں بتانا یہ چاہ رہا تھا کہ جب لکی ایرانی کی اپنی طبعی عمر پوری کر کے موت ہوئی تو اُس کا کوئی خریدار نہیں تھا اور اُسے چڑیا گھر کے احاطے میں ہی دفن کر دیا گیا ویسے مجھے اس بات کا بھی علم نہیں کہ ہمارے چڑیا گھر میں کسی بھی ہاتھی کو زندگی بھر اکیلے رہنے کی سزا کیوں دی جاتی ہے ، میں نے اپنے ابو اور میرے ابو نے اپنی بے جی یعنی میری دادی جان سے سن رکھا ہے کہ لکی ایرانی کے لیے ایک نر ہاتھی منگوایا گیا تھا لیکن وہ جنگل سے پکڑا گیا ایک آزاد ہاتھی تھا اس لیے چڑیا گھر کی انتظامیہ اسے قابو میں نہ رکھ سکی اور ایک رات جب وہ بھاگ نکلا تو مجبورا اسے گولیاں مارنی پڑی آخری گولی جو اُس کی موت کا سبب بنی وہ اُس کی کن پٹی پہ ماری گئی تھی، اگر یہ بات سچ بھی ہے تو یہ اُس زمانے کی بات ہے جب عام لوگوں تک ہاتھی کی قدرتی عادات کا علم نہیں تھا، ہاتھی جو ہزاروں سال سے انسان اپنے مختلف استعمال میں لا رہا ہے لیکن آج بھی بیشتر لوگوں کو یہ علم نہیں ہو گا کہ نر ہاتھی سال میں ایک دفعہ جنونی کیفیت کا شکار ہوتا ہے، حرفِ عام میں اس حالت کو مست کا نام دیا گیا ہے، سو مستی کی کیفیت میں ہاتھی جنونی ہو کر قابو میں نہیں رہتا اور ایسی حالت میں مہاوت حضرات اُسے علیحدہ باندھ دیتے ہیں اور کوئی اُس کے قریب نہیں جاتا یہ حالت کچھ دنوں سے لے کر کچھ ہفتوں تک پہ محیط ہو سکتی ہے۔
ایک دفعہ مجھے اخبار کے زریعے پتہ چلا کہ چڑیا گھر کی انتظامیہ نے انیمل آڈپشن کا طریقہِ کار متعارف کروایا ہے آپ یقین کریں میری خوشی کی انتہاء نہ رہی اور میں بغیر سوچے اور وقت ضائع کیے چڑیا گھر کے لیے نکل کھڑا ہوا سارے رستے میں سوچتا رہا کہ مجھے کونسا سا جانور یا پرندہ آڈاپٹ کرنا چاہیے اور یہ کہ کوئی آدمی ایسا بھی ہو گا جو شیر یا ہاتھی کو آڈاپٹ کرے گا اور اُس شخص کے پاس ہاتھی یا شیرکو رکھنے کا بندوبست کہاں ہو گا ؟ اسی طرح کے درجنوں سوال اپنے زہن میں لیے میں چڑیا گھر میں داخل ہوا، وہاں مکمل معلومات لینے سے مجھے معلوم ہوا کہ کوئی بھی جانور چڑیا گھر تو کیا اپنے پنجرے کی حدود سے بھی باہر نہیں لے جایا جا سکتا آپ نے صرف ماہانہ اُس جانور کا خرچہ اُٹھانا ہے اور اس کے بدلے جانور کے نام کی تختی پر اُس جانور کے ساتھ آپ کا نام لکھ دیا جائے گا ویسے اس سے اچھی احمقانہ آفر میرے لیے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی تھی، میں اکثر چڑیا گھر کے ڈائریکٹرکو ای۔ میل بھی کیا کرتا تھااور اس سیر گاہ کو زیادہ بہتر بنانے کے حوالے سے کافی اقدامات اور مشورے دیا کرتا تھا پر میرے کسی مشورے پہ عمل کرنا تو دور آج تک مجھے کسی ڈائریکٹر کی طرف سے ای۔میل کا جواب تک نہیں آیا تھا، ہمارے چڑیا گھروں کے جانور بہت صابر واقع ہوئے ہیں سردیوں میں سورج نکلا تو اُس کی تپش ورنہ ٹھنڈا فرش اور گرمیوں میں اکثر میں نے شیر کو آدھی پٹی برف کی چاٹتے اور اُسی پر سر رکھ ک سوتے دیکھا ہے ویسے یہ منظر میرے لےئے کچھ نیا اس لیے بھی نہیں کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے نا صرف ہمارا پالتو یا قید جیا جنترا بلکہ انسان بھی ایسے ہی گزارہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔
لاہور چڑیا گھر کی بات کی جائے تو دو مین انٹرنس ہیں ایک مال روڈ سائیڈ اور دوسرا گیٹ لارنس روڈ سائیڈ پہ آتاہے، مال روڈ گیٹ سے اگر اندر آیا جائے تو سب سے پہلے آپ کا سامناجانورں کے جس گروپ سے ہوتا ہے وہ بندر ہیں جب کبھی بھی میں فیملی یا خاص کر کے چھوٹے بچوں کے ساتھ ہوتا ہوں تو میری پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ بندروں کے پنجروں کو بائی پاس کیا جائے اور جلدی آگے بڑھا جائے یہ بندروں کا سیکشن چڑیا گھر میں وہ واحد ایریا ہے جہاں میرے خیال میں 18+ کا بورڈ نصب ہونا چاہیے یا پھر انتظامیہ کو بندروں کی پرائیوسی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، میرے پسندیدہ جانورں میں مگر مچھ کا نمبر بھی ٹاپ ٹین میں آتا ہے، میں درجنوں دفعہ چڑیا گھر جا چکا ہوں لیکن قسم والی بات ہے جو میں نے کبھی وہاں مگر مچھ کو ہلتے جلتے یا چلتے پھرتے دیکھا ہو ،بے شمار دفعہ میں نے لوگوں کو وہاں کے مگر مچھوں کو مصنوعی قرار دیتے سنا ہے اگر میرا علم میرے شوق کی وجہ سے زیادہ نہ ہوتا تو یقینن میں بھی لوگوں کی باتوں سے اتفاق کر چکا ہوتا۔
میری ہوش میں لاہور چڑیا گھر میں دو ہاتھی رہے ہیں ایک پرانی ہتھنی جس کا نام لکی ایرانی تھا اور اُس کی موت کے بعد موجودہ ہتھنی جو سوزی کے نام سے جانی جاتی ہے ایک مشہورکہاوت ہے کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مردہ سوا لکھ کا، ویسے قیمت سے تو یہ بھلے وقتوں کی مثال لگتی ہے کیونکہ اب تو کچھ خاص قسم کے پرندے اور اچھے حلال جانور لاکھوں مالیت کے ہوتے ہیں میں بتانا یہ چاہ رہا تھا کہ جب لکی ایرانی کی اپنی طبعی عمر پوری کر کے موت ہوئی تو اُس کا کوئی خریدار نہیں تھا اور اُسے چڑیا گھر کے احاطے میں ہی دفن کر دیا گیا ویسے مجھے اس بات کا بھی علم نہیں کہ ہمارے چڑیا گھر میں کسی بھی ہاتھی کو زندگی بھر اکیلے رہنے کی سزا کیوں دی جاتی ہے ، میں نے اپنے ابو اور میرے ابو نے اپنی بے جی یعنی میری دادی جان سے سن رکھا ہے کہ لکی ایرانی کے لیے ایک نر ہاتھی منگوایا گیا تھا لیکن وہ جنگل سے پکڑا گیا ایک آزاد ہاتھی تھا اس لیے چڑیا گھر کی انتظامیہ اسے قابو میں نہ رکھ سکی اور ایک رات جب وہ بھاگ نکلا تو مجبورا اسے گولیاں مارنی پڑی آخری گولی جو اُس کی موت کا سبب بنی وہ اُس کی کن پٹی پہ ماری گئی تھی، اگر یہ بات سچ بھی ہے تو یہ اُس زمانے کی بات ہے جب عام لوگوں تک ہاتھی کی قدرتی عادات کا علم نہیں تھا، ہاتھی جو ہزاروں سال سے انسان اپنے مختلف استعمال میں لا رہا ہے لیکن آج بھی بیشتر لوگوں کو یہ علم نہیں ہو گا کہ نر ہاتھی سال میں ایک دفعہ جنونی کیفیت کا شکار ہوتا ہے، حرفِ عام میں اس حالت کو مست کا نام دیا گیا ہے، سو مستی کی کیفیت میں ہاتھی جنونی ہو کر قابو میں نہیں رہتا اور ایسی حالت میں مہاوت حضرات اُسے علیحدہ باندھ دیتے ہیں اور کوئی اُس کے قریب نہیں جاتا یہ حالت کچھ دنوں سے لے کر کچھ ہفتوں تک پہ محیط ہو سکتی ہے۔
ایک دفعہ مجھے اخبار کے زریعے پتہ چلا کہ چڑیا گھر کی انتظامیہ نے انیمل آڈپشن کا طریقہِ کار متعارف کروایا ہے آپ یقین کریں میری خوشی کی انتہاء نہ رہی اور میں بغیر سوچے اور وقت ضائع کیے چڑیا گھر کے لیے نکل کھڑا ہوا سارے رستے میں سوچتا رہا کہ مجھے کونسا سا جانور یا پرندہ آڈاپٹ کرنا چاہیے اور یہ کہ کوئی آدمی ایسا بھی ہو گا جو شیر یا ہاتھی کو آڈاپٹ کرے گا اور اُس شخص کے پاس ہاتھی یا شیرکو رکھنے کا بندوبست کہاں ہو گا ؟ اسی طرح کے درجنوں سوال اپنے زہن میں لیے میں چڑیا گھر میں داخل ہوا، وہاں مکمل معلومات لینے سے مجھے معلوم ہوا کہ کوئی بھی جانور چڑیا گھر تو کیا اپنے پنجرے کی حدود سے بھی باہر نہیں لے جایا جا سکتا آپ نے صرف ماہانہ اُس جانور کا خرچہ اُٹھانا ہے اور اس کے بدلے جانور کے نام کی تختی پر اُس جانور کے ساتھ آپ کا نام لکھ دیا جائے گا ویسے اس سے اچھی احمقانہ آفر میرے لیے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی تھی، میں اکثر چڑیا گھر کے ڈائریکٹرکو ای۔ میل بھی کیا کرتا تھااور اس سیر گاہ کو زیادہ بہتر بنانے کے حوالے سے کافی اقدامات اور مشورے دیا کرتا تھا پر میرے کسی مشورے پہ عمل کرنا تو دور آج تک مجھے کسی ڈائریکٹر کی طرف سے ای۔میل کا جواب تک نہیں آیا تھا، ہمارے چڑیا گھروں کے جانور بہت صابر واقع ہوئے ہیں سردیوں میں سورج نکلا تو اُس کی تپش ورنہ ٹھنڈا فرش اور گرمیوں میں اکثر میں نے شیر کو آدھی پٹی برف کی چاٹتے اور اُسی پر سر رکھ ک سوتے دیکھا ہے ویسے یہ منظر میرے لےئے کچھ نیا اس لیے بھی نہیں کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے نا صرف ہمارا پالتو یا قید جیا جنترا بلکہ انسان بھی ایسے ہی گزارہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔