حقائق کو سنسنی خیزی اور اشتہارات نے دھندلا دیا
سید جعفر شاہ
میڈیا، پرنٹ ہو یا الیکٹرانک اس کا کام عوام کوعلاقائی، ملکی وبین الاقوامی معاملات سے باخبر رکھنا ہے۔ خبروں کا واضح، حقائق پر مبنی، سنسنی سے پاک اور غیر جانبدارانہ ہونا ضروری ہے۔ عوام اپنا وقت اخبارات یا ٹیلی وژن چینلز کو اس امید پر دیتے ہیں کہ وہ اپنے علاقے، ملک اور بین الاقوامی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ ہوں اور وہ جان سکیں کہ ان کے گرد و پیش میں کیسے حالات پنپ رہے ہیں۔ عوام کا میڈیا کو وقت دینے یا اس پر خرچ کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے ساتھ ساتھ اپنے ہمسایہ معاشروں کے اُنچ نیچ سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ تمام پڑھنے یا دیکھنے والوں کی دلچسپی یکساں نہیں ہوتی، کوئی سیاسی حالات کی آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے، کوئی امن امان کی صورتحال کے بارے میں متجسس ہوتا ہے، کوئی سماجی نقطہء نظر سے اخبار مطالعہ کرتا ہے تو کسی کے لئے سپورٹس یا بزنس کی خبریں دلچسپی کا باعث ہوتیں ہیں ، بعض لوگ مذہب سے متعلق معاملات کی جانکاری کے لئے نشرواشاعت کو وقت دیتے ہیں۔ معاشرے میں موجود تمام طبقات ہائے فکرجن میں طلباء، اساتذہ، وکلاء، سیاسی و سماجی کارکنان ، کاروباری شخصیات اور حکومتی اہلکاران وغیرہ شامل ہیں اپنی انپی دلچسپی اور ضرورت کے مطابق اخبار بینی کرتے اور ٹیلی وژن چینلز دیکھتے ہیں۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ خبریں ایسی ہوں جوکسی بھی قسم کی جانبداری سے مُبرا، واضح ، مکمل طور پر حقائق پر مبنی اور بالخصوص سنسنی خیزی سے پاک ہوں۔ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اشتہارات ایک مخصوص حد سے ہرگز متجاوز نہ ہوں۔
ہمارے موجودہ میڈیا کو اگر ناقدانہ نظر سے دیکھا جائے تو صورتحال چنداں خوشگوار نہیں۔ اخبارات ہوں یا ٹیلی وژن چینلز توجہ حاصل کرنے ریٹنگ اور آمدنی بڑھانے کے چکر میں غیر ضروری سنسنی کا سہارا لیتے ہوئے نہ صرف پیشہ واریت کے پر خچے اُڑا لیتے ہیں بلکہ حقائق کے ساتھ بھی ناانصافی کر جاتے ہیں۔ اس ضمن میں بعض اوقات غیر مصدقہ خبروں کی نشرو اشاعت کر بیٹھتے ہیں تو بعض اوقات اہم خبروں کی بجائے معمولی نوعیت کے معاملات کو بے جا اُچھالتے ہیں۔اکثر اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسے معاملات جن کانشر و شایع ہونا یا نہ ہونا علاقائی ، قومی و بین الاقوامی حوالے سے بالکل بھی اہم نہیں ہوتا مگر گلیمر اور سنسنی پھیلانے کے لئے اس کی قومی میڈیا پربے تحاشہ تشہیر ہوتی ہے۔ جس کی مثال ایک کرکٹر کی بھارتی ٹینس سٹار کے ساتھ شادی کے موقع پر قومی میڈیا کا انتہائی غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ اس وقت کے بیسیوں علاقائی و ملکی اہمیت کی حامل خبروں و مسائل کو نظر انداز کر کے مسلسل اس شادی کو فوکس کرنا کیسے مناسب ہوسکتا ہے۔ ہمارا میڈیا کسی بھی پسماندہ علاقے یا مختلف علاقوں کے مختلف مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے سنسنی خیزی کی خاطر ایک اداکارہ کی بے سرو پا انگریزی، دوسری اداکارہ کے توبہ تائب ہونے اورایک ملزمہ ماڈل کی عدالت میں پیشی کے وقت کئے گئے فیشن اوربکھیرے گئے جلوئوں کو بار بار پیش کرنا یا اس پر تبصرے لکھنا زیادہ قرین قیاس خیال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہمارے میڈیا کاسنسنی و اشتہارات کے زیر اثر ہونے اور حقائق کے ساتھ ناانصافی کرنے کی بے شمار مثالیں ہیں جن میں زیادہ افسوسناک مخلوط دھرنا، جلو س و جلسہ کی بے پایاں کوریج ہے۔ جیسا کہ آج کل کچھ سیاسی جماعتوں نے مخلوط دھرنوں، جلسوں اور جلوسوں کی روایت عام کی ہے جو کہ سیاسی دھرنے، جلسے و جلوس کم اور بے راہ رو نوجوانوں کا طوفان بدتمیزی زیادہ ہوتا ہے جس میں انہیں ہر قسم کی چھوٹ ہوتی ہے ، اسی وجہ سے شرکت بھی کچھ زیادہ ہوتی ہے ساتھ میں گلیمراور جلوئوں کا تڑکہ لگا ہوتا ہے جس کی وجہ سے دیگر نوجوان بھی اس میں دلچسپی لیتے ہیں یہیں پر میڈیا بھی بے مہار سنسنی پر کمر بستہ ہوجاتاہے جیسے ہی ویورشپ بڑھتی ہے اُسی تناسب سے اشتہارات کی پھوار پڑتی ہے۔ ملک کے کسی حصے میں کوئی بھی بڑا حادثہ ہوا ہو جس میں درجنوں انسان جان سے گئے ہوں میڈیا اسے درخوراعتنا نہیں سمجھے گا بلکہ ان معاملات کو بار بار دھرائے گا جس سے ریٹنگ بھڑنے کی توقع ہو جیسا کہ ستمبر 2016 میں مہمند ایجنسی میں نماز جمعہ کے موقع پر دھماکے کی وجہ سے مبینہ طور پر 30 سے زائد افراد شہید ہوئے مگر قومی میڈیا پر اتنے بڑے حادثے کو کوئی کوریج نہیں دی گئی جبکہ کراچی کی ایک مشکوک سیاسی جماعت کی معمولی نوعیت کی خبروں اور کراچی ہی میں ایک پولیس افسر کی معطلی و بحالی وغیرہ کی فوٹیجز مسلسل دھرائی جاتیں رہیں۔
ہمارے میڈیا پر یہ تنقید کی جاتی ہے اور بجا کی جاتی ہے کہ جانبداری سے کام لیا جا تا ہے۔ چھوٹے صوبوںیا کمزور طبقات کو ضروری کوریج بھی نہیں دی جاتی جبکہ حاوی قوتوں کی معمولی اہمیت کی خبروں کو بھی بے جا مصالحہ لگا لگا کر بارہا دہرایا جاتا ہے۔ مختلف ڈھنگ سے سنسنی خیز بنابنا کر پیش کئے جاتے ہیں۔
سنسنی خیزی اور ریٹنگ کی وجہ سے خبر کی اصل نوعیت اور حقائق پس پشت ہوجاتی ہیں اس کا عوام الناس پر بھی کافی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، عوام معلومات حاصل کرنے کی بجائے نفسیاتی مرض اور خوف و ہراس میں مبتلا جاتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا اپنی صحافتی اقدار اور پیشہ وارانہ ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے سنسنی خیزی اور اشتہارات کے مارکیٹ میں پیسہ کمانے میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔ پاکستان میں ٹیلی وی چینلز کا 80 فیصد مواد براہ راست نشر ہوتا ہے ہمارے خبرنامے براہ راست ہوتے ہیں جبکہ رپورٹرز بھی سارا دن ڈی ایس این جی پر دستیاب ہوتے ہیں یہ کسی بھی وقت عجیب و غریب خبر دے سکتے ہیں تحقیق اور تفتیش کے بغیر بڑی سے بڑی خبر بریک کرسکتے ہیں جبکہ یورپ اور امریکہ کے ٹی چینلز کا 70 فیصد مواد ریکارڈ شدہ ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رویہ کی اصل وجوہات ریٹنگ کی دوڑ ہے جس نے حقائق کو دھندلا کردیا۔ اس وقت پوری قوم افراتفری اور احساس محرومی کا شکار ہے دوسری جانب میڈیا جس کا جادو ہمارے معاشرے میں سرجوڑ کا بول رہا ہے ایک بیوپاری کے طور پر ابھر رہا ہے۔