فقہی قوانین اور معاصر ریاستی قوانین میں ترجیحات
(فقہی جواز بمقابل ریاستی قانون سازی)
امجد عباس
لفظ "فقہ" عام طور پر شرعی قوانین کے علم کے لیے بولا جاتا ہے۔ اکثر مسلمان فقہاء کے مطابق قرآن مجید کی چھ ہزار سے زائد آیات میں سے تقریباً پانچ سو آیات کا تعلق فقہی احکام سے ہے۔ فقہ کا بڑا ماخذ احادیث ہیں، اِس کے علاوہ اجماع، عقلی قواعد و ضوابط (بشمول قیاس، استحسان، مصالح مرسلہ، سد الذریعہ) اور دیگر قواعد سے فقہاء، شرعی قوانین بناتے ہیں۔ فقہ میں بیان کردہ احکام کا تعلق یا تو عبادات سے ہے یا انسانی زندگی کے (انفرادی و اجتماعی) مختلف معاملات سے۔ اِن احکام کا بنیادی مقصد انسانی زندگی کو منظم کرنا ہے۔ ریاستی قوانین کا بھی بنیادی ہدف انسانی معاشرے کو منظم کرنا ہے۔ بسا اوقات فقہ میں ایک معاملہ عبوری انداز میں بیان کیا جاتا ہے یا اُس کے متعلق کوئی خاص رہنمائی نہیں ملتی یا رخصت مذکور ہے، لیکن ریاست نے اُس پر منظم قانون سازی کی ہوتی ہے، ایسے میں ریاستی قانون سازی کو ترجیح حاصل ہوگی، اِسی قانون سازی پر عمل کرنا ہوگا۔ فقہی "گنجائش" (جواز) کا سہارا نہیں لیا جا سکتا۔ چند مثالیں ذکر کروں گا
1- نکاح کی رجسٹریشن کا معاملہ فقہی طور پر مذکور نہیں، نہ ہی لازم۔ ریاستی قوانین میں اِسے لازم قرار دیا گیا ہے، چنانچہ نکاح کو رجسٹر کروانا شہری کی ذمہ داری ہے۔ وہ شادی شدہ شہری کے حقوق کے حصول کے لیے فقہی رخصت سے استفادہ نہیں کرسکتا۔
2- شیعی و سُنی فقہ میں کئی اجتماعی معاملات میں از خود فیصلہ کرنے اور سزا دینے کے احکام نظر آتے ہیں، جیسے بیوی کو کسی اور کے ساتھ غلط حالت میں دیکھ کر قتل کرنے جیسی رُخصتیں، لیکن یہ احکام عبوری طرز کے ہیں۔ بہتر قانون سازی کی موجودگی میں اِن پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ اب ایسے قتل میں قاتل کو کوئی رعایت نہیں ملے گی۔ ہاں وہ مذکورہ صورت حال میں بیوی کو طلاق دے کر جان چھڑا لے، مزید قانونی کاروائی کی درخواست بھی دے سکتا ہے۔ ہم آگاہ ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کو سنگین جرم قرار دیا جا چکا ہے۔ قاتل کو بھی قتل کیا جائے گا۔
3- اہل سنت کی چار فقہوں (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) میں ایک محفل میں تین طلاقیں دی جائیں تو تین ہی شمار ہوں گی، جبکہ مسلم دنیا کے کئی ممالک نے اِس کے مقابلے میں تین کو ایک شمار کرنے کی قانون سازی کر رکھی ہے، ایسے میں بیک محفل، تین طلاقیں ایک شمار کر جائیں گی۔
4- قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نافرمان بیوی کو سمجھانے کے لیے آخری حربہ کے طور پر "ہلکی پھلکی" مار پٹائی کی گنجائش نکل سکتی ہے، لیکن اگر ریاستی قوانین میں اِس حوالے سے قانون سازی موجود ہے جو ایسے تشدد کی بالکل اجازت نہیں دیتی تو اِس فقہی رخصت پر عمل کرنا درست نہیں ہوگا۔
مزید مثالیں موجودہ قومیت (نیشنلٹی) کا تصور اسلامی عالمی اُخوت/ قومیت کے تصور سے "اجنبی" دکھائی دیتا ہے۔ حج کے لیے پاسپورٹ، ویزہ کا بنوانا شرعی طور پر لازم نہیں۔ شاید "اُمہ" کا حصہ ہونے کے ناتے مسلم ممالک کا ایک دوسرے کے شہری کے لیے پاسپورٹ، ویزے کی شرط لگانا بھی فقہی لحاظ سے "اجنبی" قانون ہو لیکن اب اِس کی پاسداری لازم ہوگی۔ اِسی طرح بعض روایات اور فقہی عبارات کا سہارا لے کر کہا جاتا ہے کہ "توہین" کے مرتکب کو براہ راست، ماوراءِ عدالت قتل کیا جاسکتا ہے، وہاں بھی یہی اُصول لاگو ہوگا، جیسے ویزہ اور پاسپورٹ کے بغیر حج پر نہیں جایا جا سکتا (جبکہ حرمین سبھی مسلمانوں کے ہیں) ایسے ہی "توہین" کے مُلزم کیا، مجرم کو بھی از خود سزا نہیں دی جا سکتی۔ جن فقہی تعبیرات میں از خود سزا کی بات ہے وہ عبوری نوعیت کی ہیں، اُن کا تعلق ایسے معاشرے سے ہے جہاں کوئی قانون یا قانونی ڈھانچہ موجود ہی نہ ہو، چنانچہ اب ریاستی قوانین اور قانونی ڈھانچے کی موجودگی میں ایسے معاملات میں خود سے مُجرم کو سزا دینا درست نہ ہوگا۔
اگر آپ از خود سزا دینے کا "فقہی" جواز رکھتے ہیں تو بلا ویزہ اور بلا پاسپورٹ حج پر بھی جائیے اور عرب ریاستوں میں کفیل کے بغیر کاروبار کیجیے، نیشنلٹی کا مطالبہ بھی کیجیے کہ مُسلِم اُمہ کا فرد ہونے کے ناتے مجھے مکمل شہری حقوق فراہم کیے جائیں اور اپنی ذمہ داری پر حضرت علامہ محمد اقبال کا یہ کلام زور زور سے گنگنائیے گا
چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا
مُسلِم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا، نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بُت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
"ہم اُس کے پاسباں ہیں" وہ پاسباں ہمارا
پس ریاستی سطح پر منظم قانون سازی کے بعد، اجتماعی معاملات میں فقہی جوازات/ عبوری احکام کو ترجیح حاصل نہ ہوگی۔ ایسے موارد میں ریاستی قوانین مقدم ہوں گے، اِسے یُوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ عبوری فقہی احکام/ جوازات کے مقابل میں ریاست قانون سازی کر سکتی ہے، جس پر شہریوں کو عمل کرنا ہوگا۔