Dasht Se Sehra Kya Gaya - Shahid Kamal


شاہدؔ کمال 
لکھنؤ انڈیا 

ذرّے سے دشت، دشت سے صحرا کیا گیا
یوں میری وحشتوں کو سراپا کیا گیا

میرے لہو سے تشنہ لبی کی گئی کشید
پھر میری کشت خاک کو دریا کیا گیا

مسند نشین محفل یارانِ یار تھا
مجھ کو ہجوم یاس میں تنہا کیا گیا

خود میرے درمیان سے مجھ کو نکال کر
اے حرف نا شناس یہ اچھا کیا گیا

اتنا سا بس جواز ہے میرے وجود کا
دست ہَوا پہ نقشِ کف پَا کیا گیا

پہلے تو اس کے نام سے تشہیر دی گئی
پھر میری چاہتوں کو بھی رسوا کیا گیا

آزادیوں نے پاؤں میں زنجیر ڈال دی
مجھ کو اسیر دام تمنا کیا گیا

خود انتقام لینا تھا شاہدؔکمال سے
جیسا کہا تھا میں نے ، سو ویسا کیا گیا