اب تو ڈر لگتا ہے
ڈاکٹر ابرار ماجد
کچھ بھی کہنے سےاب تو ڈر لگتا ہے
اپنا گھر بھی دشمن کا گھر لگتا ہے
چاہا تو بہت نہ کھولوں لب اپنے
پر منافقت اب یہ صبر لگتا ہے
قاضی، ملاں، محافظ ہو یا کوئی صحافی
ہر کسی کی باتوں میں شر لگتا یے
جلا کر رکھ دیا ہے میرے چمن کو
بے حسی کو تیری جو بدل لگتا ہے
درندوں کو بھی دے گیا ہے مات
دیکھنے میں جو مانند بشر لگتا ہے
شاید بدل گیا ہے قیامت کا تصور
اب تو ہر روز یوم حشر لگتا ہے