خواجہ تنویر کا سوئٹزرلینڈ
از ارشاد بھٹی
بات تو یہ بھی کمال کی تھی کہ ہزاروں فٹ بلند برف کے پہاڑ پر فائیو سٹار ٹرین کا آنا، منظر تو یہ بھی لا جواب تھا کہ برفیلے پہاڑ پر کنٹرولڈ ٹمپریچر ریستوران، کافی شاپ اور جدید شاپنگ گیلری کا ہونا اور سین تو یہ بھی بے مثال تھا کہ برفیلے پہاڑ کی چوٹی پر جانے کیلئے جہاں لفٹ موجود وہاں سانپ کی طرح بل کھاتی برفیلی سرنگ اور سرنگ میں جابجا برف کے بنے جانور اور پرندے، مگر جب برف کی درجن بھر سیڑھیاں چڑھ کر اور برفیلی سرنگ سے گذر کرمیں نے برف کے پہاڑ کی چوٹی پر قدم رکھتے ہی نظر دوڑائی تو جو کچھ سامنے تھا اُس کے سامنے کمال، بے مثال اور لاجواب سب ماند پڑ گئے، چاروں طرف برف سے ڈھکے پہاڑ،پہاڑوں کے قدموں میں نیلے پانی کی جمی جھیل،جھیل کے اِردگرد 5 چھ رنگوں کے پھول اور پھر اس پوری برفیلی وادی کو گھیرا ڈالے گہرے سبز رنگ کا گھاس اور گھاس کو گھیرے کھڑے رنگ برنگے درخت، میں تو اسی نظارے میں ہی کھویا رہتا لیکن اچانک برف کے ذرات بھری ہوا تیز ہوئی، میرے قدم اکھڑنے لگے اور اس سے پہلے کہ برفیلی ہوا گرا دیتی میں فوراً نیچے بیٹھا اور ہواس بحال ہونے پر بیٹھے بیٹھے ہی ہاتھوں اور پاؤں سے ر ینگتے ر ینگتے بیس 25 فٹ کا فاصلہ طے کر کے جیسے ہی میں برفیلے پہاڑ کے نسبتاً اونچے کونے پر لہر اتے سوئس جھنڈے کے نیچے آیا تومیں یورپ کے اُس بلند ترین مقام پر تھا کہ جس کا نام Jungfrau اور جس کے معنی خواجہ تنویر نے’’ کنواری دوشیزہ‘‘ کے بتائے، چند لمبی لمبی سانسیں لے کر میں نے برفیلی ہوا کے تھپیڑوں میں پینٹ کی جیب سے موبائل نکالا،سُن ہوچکے ہاتھوں سے جیسے تیسے کر کے حسبِ وعدہ خواجہ تنویر کا نمبر ڈائل کیا، گھنٹی بجی اور حسبِ معمول سلام دعا کے تکلف میں پڑے بغیر خواجہ صاحب کی آواز آئی ’’دیکھ لی کنواری دوشیزہ ‘‘، تیز سے تیز تر ہوتی برفیلی ہوا کی طرف کمر کرتے ہوئے فون کو منہ کے قریب لا کر میں نے اونچی آواز میں کہا’’دیکھ تو لی مگر حضور مناسب سا رشتہ ڈھونڈ کر اپنی کنواری دوشیزہ کی شادی کر دیں،ورنہ کوئی ہم جیسا ہاتھ مارجائے گا ‘‘لیکن اس سے پہلے کہ خواجہ تنویرکوئی جواب دیتے، برفیلی ہوا نے طوفان کا روپ دھارا، برف روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگی،میں نے موبائل جیب میں ڈالا، ہاتھوں اور پاؤں کی مدد سے واپس رینگنا شروع کیا اور جب تک میں برفیلی سرنگ تک پہنچا تب تک برفیلے طوفان کے ساتھ ساتھ برفباری بھی شروع ہوچکی تھی۔
سو ئٹزر لینڈ میں یہ میرا تیسرا دن تھا، وہ سوئٹزر لینڈ جس نے دوسری جنگِ عظیم میں مر کھپ گئے ہزاروں افراد کی جمع پونجی پر اپنی ترقی کی بنیاد رکھی، جہاں دانت کے ڈاکٹر کم اور بینک زیادہ اور جہا ں کے بینکوں میں دنیا کی ’’آف شور‘‘ دولت کا ایک تہائی حصہ پڑا ہوا، وہ سوئٹزر لینڈ جس کے کل 15940مربع میل رقبے کا 70فیصد پہاڑوں اور درختوں سے ڈھکا ہوا، جس کی 83لاکھ 41ہزار آبادی اور جس کی 56فیصد بجلی ہائیڈرو الیکٹرک پاور اور 39فیصد بجلی نیوکلیئر پاور سے بنے، وہ سوئٹزرلینڈ جس کے گاؤں،گائیں، جھیلیں، چاکلیٹس اور Directڈیمو کریسی دنیا بھر میں مشہور، جہاں کوئی ایک فرد سربراہِ مملکت نہیں 7رکنی ایگزیکٹو کونسل ملکر ملک چلائے، جہاں ہر شہری سالانہ 11کلو چاکلیٹ کھا جائے، جہاں کے 6لاکھ افراد ہر سال100 ٹن چرس پی جائیں، جہاں کا ہر دوسرا شہری دنیا کے ایک فیصد امیروں میں اور جو جاپان کے بعد لمبی عمر والے لوگوں کا ملک اور وہ سوئٹزر لینڈ جہاں 1988میں گوجرانوالہ سے آئے ہمارے سچے اور پکے کشمیری خواجہ تنویر اور انکے 3بھا ئی اہل وعیال کے ساتھ رہتے ہوئے،جیسے کہا جائے کہ ڈاکٹر دو طرح کے،ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر جو علاج کریں اور دوسرے پی ایچ ڈی ڈاکٹر جو خود اس قابل کہ ان کا علاج کیاجائے ایسے ہی کشمیری بھی دو طرح کے، ایک جو اِتنا کھائیں کہ دوسروں کیلئے کچھ نہ بچے اور دوسرے جو اِتنا کھلا ئیں کہ اکثر دوسرا ہی نہ بچے، اپنے خواجہ تنویر دونوں طرح کے کشمیری، کھلانے کو تو چھوڑیں یہ تو کھانے میں بھی اُس کشمیری کی طرح کہ جسے ڈاکٹر نے جب کہا کہ ’’آپ صبح ایک انڈا،دوسلائس اور ایک گلاس دودھ لے لیا کریں‘‘ تو یہ مریض کشمیری بولا ’’ ڈاکٹر صاحب یہ سب ناشتے سے پہلے لوں یا بعد میں ‘‘۔
خواجہ صاحب بچپن سے ہی ایسے تیز کہ میٹرک کر لیا توپتہ چلا کہ مڈل تو ابھی کیا ہی نہیں، انہیں ہر کام میں اتنی جلدی کہ فلمیں بھی فاسٹ فارورڈ کرکے دیکھیں اور تو اور وہ جس رفتار سے بولیں اس رفتار سے تو ہم سُن بھی نہ سکیں، ان کی جسامت ایسی کہ لگیں کہ ’’امید ‘‘ سے، نرم دل ایسے کہ موچ کسی اورکے پاؤں میں آئے اور چل یہ نہ سکیں، مزاج ایسا کہ مخالف کو بھی ساتھ لے کر چلیں بشرطیکہ مخالف صنفِ مخالف ہو، رنگ ایسا کہ گوروں میں گورا نہ لگے اور کالوں میں کالا نہ دکھائی دے، مسکراہٹ اتنی وسیع وعریض کہ مسکرا رہے ہوں تو محسوس ہو پورا محلہ مسکرا رہا، چہرے پر نظر کی عینک یوں کہ جیسے عینک نہیں نظر لگی ہوئی اور عینک پہن کر بھی نظر اتنی کمزور کہ چند دن پہلے بازار میں بیگم سمجھ کر جس خاتون کا ہاتھ پکڑا وہ واقعی بیگم ہی نکلی، عمر کے اس حصے میں کہ جہاں بیوی کو دیکھ کر بندے کے تاثرات و ہی ہوجائیں جو دوائی دیکھ کر بچوں کے، دوستوں کی فرمائشیں ایسے پوری کریں کہ جیسے ان کے گھر سے تیل نکلتا ہو، مگر حقیقت یہ کہ دوستوں کی وجہ سے آئے روز ان کا تیل نکلے، اِ نکی دوستیاں دیکھ کر اکثر وہ سردار جی یاد آجائیں کہ جن کی اوپر نیچے 8دس مرتبہ چھینکنے پر جب پتلون نیچے جا گری تو شرما کر بولے ’’اج تے یاد کرن وَالیاں نے حد ای کر دِتی اے‘‘،ان کے چُنگل میں دوستوں کا حال دیکھ کر وہ پٹھان یاد آجائے کہ جس سے جب پوچھا گیا کہ’’ خان صاحب اگر آپ کی بیوی کوجِن چمٹ جائے تو آپ کیا کریں گے،پٹھان بولاہم نے کیا کرنا، غلطی جِن کی ہے وہی بھگتے‘‘،دنیا بھر سے سوئٹزرلینڈ میں 42سو اشیاء امپورٹ کرتے اور ’’کیش اینڈ کیری سٹورز ‘‘ چلاتے خواجہ صاحب جسمانی طو ر پر 28سال سے سوئٹزرلینڈ میں مگر روح ابھی تک پاکستان میں، لہذا جب کبھی بھی روح اور جسم کی جنگ شدت اختیار کر جائے تو یہ کشمیری پُتر اپنے پالتو کتے ’’لوکو‘‘ کو گود میں بٹھا کر ٹھنڈی آ ہیں بھر کر کہے ’’ کاش پاکستان سوئٹزر لینڈ میں ہوتا‘‘۔
3 دن پہلے زیورخ ائیر پورٹ سے مجھے بیگم اور بیٹی سمیت گاڑی میں ڈال کر اسٹیرنگ سنبھالتے ہی خواجہ صاحب بولے ’’میری مرضی کا سوئٹز رلینڈ دیکھنا ہے یا اپنی مرضی کا ‘‘ میں نے ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر جب کہا ’’ آپکی مرضی کا ‘‘تو مسکرا کر کہا’’آخرت میں تو پتا نہیں تمہیں جنت دیکھنے کا چانس ملے یا نہ ملے، چلو اس دنیا کی جنت ہی دیکھ لو ‘‘ اور پھر واقعی اگلے5دنوں میں جو کچھ خواجہ صاحب نے دکھایابلاشبہ وہ اس زمین کی جنت، جیسے چیڑ اور صندل کے درختوں اور سبزے سے لدے پہاڑوں اور ان پہاڑوں کے دامن میں نیلے پانیوں میں گھرا Interlaken ہویا 3اطراف سے جھیلوں کے گھیرے میں چھوٹے Shipsاور Boats پرمست پڑے بے فکرے پریمیوں کا Lucerne ہو، ایک بڑی سی جھیل کنارے باغوں، باغیچوں اور بلند وبالا عمارتوں والا جنیوا ہویا پھولوں اور پھل دار درختوں سے ڈھکی نہر کے کنارے فنِ تعمیر کاشاہکار سوئس دارالحکومت Bernہواور یورپ کا بلند ترین مقام Jungfrau ہویا Neuhausen میں سوئٹزرلینڈ کی سب سے بڑی واٹر فال ہو، جہاں ہر منظرہی ناقابلِ یقین حد تک ناقابلِ فراموش وہاں خواجہ تنویر کے درویش منش بھائی، انوسٹمنٹ کونسلر اور بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی خواجہ طیب کے ساتھ Weggis سے Ship میں بیٹھ کر گھنٹے بھر کی مسافت پرBrunnen جانا، سوئٹزر لینڈ اور جرمنی کی سرحد پر’’ خواجہ اینڈ فیملی ‘‘کے ساتھ ڈنرکرنا، سوئٹزر لینڈ کی شانزے لیزے Bahnhof سٹریٹ میں دوپہر سے شام تک پھرنا اور پھرا ن 5دنوں میں سوئس، اٹالین، فرنچ اور یور پین کھانوں کے ساتھ ساتھ سوئٹزرلینڈ میں ہو کر روزانہ گرما گرم تندوری روٹیوں کے ساتھ کبھی مکس سبزی اور مٹن کڑاہی اور کبھی مکس دال اور چکن کڑاہی کھانے کا مزا بھی ناقابل یقین حد تک ناقابلِ بیان، یقین جانیئے اس ’’ڈریم لینڈ‘‘ میں 5 پانچ دن کیسے گذر گئے پتا ہی نہ چلا، اس خواب سے آنکھ تب کھلی جب زیورخ ائیر پورٹ پر ایک زور دار الوادعی جپھی مار کر خواجہ تنویرنے یہ کہا ’’ کیسا لگا میرا سوئٹزرلینڈ ‘‘تو بیگم کو دور کھڑا دیکھ کر میں نے دورانِ جپھی ہی جواب دیا ’’ حضور۔۔ اعلیٰ بلکہ بہت اعلیٰ۔۔ لیکن گذارش صرف یہ کہ ملک چاہے سوئٹزر لینڈ ہو، میزبان چاہے خواجہ تنویر اور دل چاہے جوان بھی ہو لیکن بیوی ساتھ ہو تو بندہ صرف سیر ہی کر سکتا ہے‘‘ ایک قہقہے کے بعد خواجہ صاحب کا جواب آیا ’’بھائی جان اصل بات یہ نہیں،اصل بات یہ کہ بھٹی سوئٹزر لینڈ میں بھی آکر بھٹی ہی ر ہے،بھٹی بے چارے کی اتنی قسمت کہاں کہ وہ مستنصر حسین تارڑ بن سکے ‘‘۔
سو ئٹزر لینڈ میں یہ میرا تیسرا دن تھا، وہ سوئٹزر لینڈ جس نے دوسری جنگِ عظیم میں مر کھپ گئے ہزاروں افراد کی جمع پونجی پر اپنی ترقی کی بنیاد رکھی، جہاں دانت کے ڈاکٹر کم اور بینک زیادہ اور جہا ں کے بینکوں میں دنیا کی ’’آف شور‘‘ دولت کا ایک تہائی حصہ پڑا ہوا، وہ سوئٹزر لینڈ جس کے کل 15940مربع میل رقبے کا 70فیصد پہاڑوں اور درختوں سے ڈھکا ہوا، جس کی 83لاکھ 41ہزار آبادی اور جس کی 56فیصد بجلی ہائیڈرو الیکٹرک پاور اور 39فیصد بجلی نیوکلیئر پاور سے بنے، وہ سوئٹزرلینڈ جس کے گاؤں،گائیں، جھیلیں، چاکلیٹس اور Directڈیمو کریسی دنیا بھر میں مشہور، جہاں کوئی ایک فرد سربراہِ مملکت نہیں 7رکنی ایگزیکٹو کونسل ملکر ملک چلائے، جہاں ہر شہری سالانہ 11کلو چاکلیٹ کھا جائے، جہاں کے 6لاکھ افراد ہر سال100 ٹن چرس پی جائیں، جہاں کا ہر دوسرا شہری دنیا کے ایک فیصد امیروں میں اور جو جاپان کے بعد لمبی عمر والے لوگوں کا ملک اور وہ سوئٹزر لینڈ جہاں 1988میں گوجرانوالہ سے آئے ہمارے سچے اور پکے کشمیری خواجہ تنویر اور انکے 3بھا ئی اہل وعیال کے ساتھ رہتے ہوئے،جیسے کہا جائے کہ ڈاکٹر دو طرح کے،ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر جو علاج کریں اور دوسرے پی ایچ ڈی ڈاکٹر جو خود اس قابل کہ ان کا علاج کیاجائے ایسے ہی کشمیری بھی دو طرح کے، ایک جو اِتنا کھائیں کہ دوسروں کیلئے کچھ نہ بچے اور دوسرے جو اِتنا کھلا ئیں کہ اکثر دوسرا ہی نہ بچے، اپنے خواجہ تنویر دونوں طرح کے کشمیری، کھلانے کو تو چھوڑیں یہ تو کھانے میں بھی اُس کشمیری کی طرح کہ جسے ڈاکٹر نے جب کہا کہ ’’آپ صبح ایک انڈا،دوسلائس اور ایک گلاس دودھ لے لیا کریں‘‘ تو یہ مریض کشمیری بولا ’’ ڈاکٹر صاحب یہ سب ناشتے سے پہلے لوں یا بعد میں ‘‘۔
خواجہ صاحب بچپن سے ہی ایسے تیز کہ میٹرک کر لیا توپتہ چلا کہ مڈل تو ابھی کیا ہی نہیں، انہیں ہر کام میں اتنی جلدی کہ فلمیں بھی فاسٹ فارورڈ کرکے دیکھیں اور تو اور وہ جس رفتار سے بولیں اس رفتار سے تو ہم سُن بھی نہ سکیں، ان کی جسامت ایسی کہ لگیں کہ ’’امید ‘‘ سے، نرم دل ایسے کہ موچ کسی اورکے پاؤں میں آئے اور چل یہ نہ سکیں، مزاج ایسا کہ مخالف کو بھی ساتھ لے کر چلیں بشرطیکہ مخالف صنفِ مخالف ہو، رنگ ایسا کہ گوروں میں گورا نہ لگے اور کالوں میں کالا نہ دکھائی دے، مسکراہٹ اتنی وسیع وعریض کہ مسکرا رہے ہوں تو محسوس ہو پورا محلہ مسکرا رہا، چہرے پر نظر کی عینک یوں کہ جیسے عینک نہیں نظر لگی ہوئی اور عینک پہن کر بھی نظر اتنی کمزور کہ چند دن پہلے بازار میں بیگم سمجھ کر جس خاتون کا ہاتھ پکڑا وہ واقعی بیگم ہی نکلی، عمر کے اس حصے میں کہ جہاں بیوی کو دیکھ کر بندے کے تاثرات و ہی ہوجائیں جو دوائی دیکھ کر بچوں کے، دوستوں کی فرمائشیں ایسے پوری کریں کہ جیسے ان کے گھر سے تیل نکلتا ہو، مگر حقیقت یہ کہ دوستوں کی وجہ سے آئے روز ان کا تیل نکلے، اِ نکی دوستیاں دیکھ کر اکثر وہ سردار جی یاد آجائیں کہ جن کی اوپر نیچے 8دس مرتبہ چھینکنے پر جب پتلون نیچے جا گری تو شرما کر بولے ’’اج تے یاد کرن وَالیاں نے حد ای کر دِتی اے‘‘،ان کے چُنگل میں دوستوں کا حال دیکھ کر وہ پٹھان یاد آجائے کہ جس سے جب پوچھا گیا کہ’’ خان صاحب اگر آپ کی بیوی کوجِن چمٹ جائے تو آپ کیا کریں گے،پٹھان بولاہم نے کیا کرنا، غلطی جِن کی ہے وہی بھگتے‘‘،دنیا بھر سے سوئٹزرلینڈ میں 42سو اشیاء امپورٹ کرتے اور ’’کیش اینڈ کیری سٹورز ‘‘ چلاتے خواجہ صاحب جسمانی طو ر پر 28سال سے سوئٹزرلینڈ میں مگر روح ابھی تک پاکستان میں، لہذا جب کبھی بھی روح اور جسم کی جنگ شدت اختیار کر جائے تو یہ کشمیری پُتر اپنے پالتو کتے ’’لوکو‘‘ کو گود میں بٹھا کر ٹھنڈی آ ہیں بھر کر کہے ’’ کاش پاکستان سوئٹزر لینڈ میں ہوتا‘‘۔
3 دن پہلے زیورخ ائیر پورٹ سے مجھے بیگم اور بیٹی سمیت گاڑی میں ڈال کر اسٹیرنگ سنبھالتے ہی خواجہ صاحب بولے ’’میری مرضی کا سوئٹز رلینڈ دیکھنا ہے یا اپنی مرضی کا ‘‘ میں نے ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر جب کہا ’’ آپکی مرضی کا ‘‘تو مسکرا کر کہا’’آخرت میں تو پتا نہیں تمہیں جنت دیکھنے کا چانس ملے یا نہ ملے، چلو اس دنیا کی جنت ہی دیکھ لو ‘‘ اور پھر واقعی اگلے5دنوں میں جو کچھ خواجہ صاحب نے دکھایابلاشبہ وہ اس زمین کی جنت، جیسے چیڑ اور صندل کے درختوں اور سبزے سے لدے پہاڑوں اور ان پہاڑوں کے دامن میں نیلے پانیوں میں گھرا Interlaken ہویا 3اطراف سے جھیلوں کے گھیرے میں چھوٹے Shipsاور Boats پرمست پڑے بے فکرے پریمیوں کا Lucerne ہو، ایک بڑی سی جھیل کنارے باغوں، باغیچوں اور بلند وبالا عمارتوں والا جنیوا ہویا پھولوں اور پھل دار درختوں سے ڈھکی نہر کے کنارے فنِ تعمیر کاشاہکار سوئس دارالحکومت Bernہواور یورپ کا بلند ترین مقام Jungfrau ہویا Neuhausen میں سوئٹزرلینڈ کی سب سے بڑی واٹر فال ہو، جہاں ہر منظرہی ناقابلِ یقین حد تک ناقابلِ فراموش وہاں خواجہ تنویر کے درویش منش بھائی، انوسٹمنٹ کونسلر اور بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی خواجہ طیب کے ساتھ Weggis سے Ship میں بیٹھ کر گھنٹے بھر کی مسافت پرBrunnen جانا، سوئٹزر لینڈ اور جرمنی کی سرحد پر’’ خواجہ اینڈ فیملی ‘‘کے ساتھ ڈنرکرنا، سوئٹزر لینڈ کی شانزے لیزے Bahnhof سٹریٹ میں دوپہر سے شام تک پھرنا اور پھرا ن 5دنوں میں سوئس، اٹالین، فرنچ اور یور پین کھانوں کے ساتھ ساتھ سوئٹزرلینڈ میں ہو کر روزانہ گرما گرم تندوری روٹیوں کے ساتھ کبھی مکس سبزی اور مٹن کڑاہی اور کبھی مکس دال اور چکن کڑاہی کھانے کا مزا بھی ناقابل یقین حد تک ناقابلِ بیان، یقین جانیئے اس ’’ڈریم لینڈ‘‘ میں 5 پانچ دن کیسے گذر گئے پتا ہی نہ چلا، اس خواب سے آنکھ تب کھلی جب زیورخ ائیر پورٹ پر ایک زور دار الوادعی جپھی مار کر خواجہ تنویرنے یہ کہا ’’ کیسا لگا میرا سوئٹزرلینڈ ‘‘تو بیگم کو دور کھڑا دیکھ کر میں نے دورانِ جپھی ہی جواب دیا ’’ حضور۔۔ اعلیٰ بلکہ بہت اعلیٰ۔۔ لیکن گذارش صرف یہ کہ ملک چاہے سوئٹزر لینڈ ہو، میزبان چاہے خواجہ تنویر اور دل چاہے جوان بھی ہو لیکن بیوی ساتھ ہو تو بندہ صرف سیر ہی کر سکتا ہے‘‘ ایک قہقہے کے بعد خواجہ صاحب کا جواب آیا ’’بھائی جان اصل بات یہ نہیں،اصل بات یہ کہ بھٹی سوئٹزر لینڈ میں بھی آکر بھٹی ہی ر ہے،بھٹی بے چارے کی اتنی قسمت کہاں کہ وہ مستنصر حسین تارڑ بن سکے ‘‘۔