گل داؤدی Chrysanthemum
یہ پھول انتہائی خوبصورت ہوتے ہیں اور نہ صرف گملوں اور کیاریوں میں نہیں بلکہ گلدانوں میں بھی کئی کئی دن تک تازہ رہتے ہیں۔ گل داؤدی کے پھول تقریباً تین سے چار مہینوں تک کھلتے رہتے ہیں اور ان کی صحت متعلقہ آب وہوا اور موسم کے مطابق ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک جھاڑی نما پودا ہوتا ہے جس کو سہارا دے کر کھڑا کیا جاتا ہے۔ یوں تو گل داؤدی کا پودا سارا سال ہی زندہ رہتا ہے مگر قلموں سے اس کی کاشت اگست کے اواخر اور ستمبر کے اوائل میں ہوتی ہے۔ گرمی کا زور ٹوٹتے ہی جیسے موسم خنکی کی طرف جھکنے لگتا ہے تو گل داؤدی کی کونپلیں سر اُٹھانا شروع کردیتی ہیں۔ آج کل نرسریوں میں گل داؤدی کی کئی اقسام دستیاب ہیں جن کو آپ آسانی سے اپنے گھر کے آنگن میں خوبصورت گملوں میں لگا سکتے ہیں۔ گل داؤدی کے پھول کئی اقسام کے ہوتے ہیں ، چھوٹے بڑے سب سائزز میں دستیاب ہیں، بڑے پھول اکثر ٹہنیوں پر ایک سے چار کی تعداد میں لگتے ہیں جبکہ چھوٹے پھول گچھوں کی شکل میں بھی ہوتے ہیں۔اگر آپ کے پاس گل داؤدی کے پرانے پودے موجود ہیں تو نہایت آسانی سے ان سے نئے پودے لئے جاسکتے ہیں۔ پرانے پودے کی لمبی شاخوں کو کاٹ کر کسی بوتل یا گلاس وغیرہ میں پانی بھر کر رکھ لیں ، کچھ ہی دنوں بعد جڑیں نکل آئیں گی جن کو آپ گملوں میں منتقل کرکے نئے پودے لے سکتے ہیں۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صحت مند شاخوں کو پودے کے تنے سے مناسب فاصلے پر کاٹ کر ان کو مٹی میں لگا دیں، کچھ دنوں بعد یہ بھی نئے پودے بن جائیں گے۔سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہپودے کی لمبی شاخوں کو پودے سے کچھ فاصلے پر مٹی میں اس طرح دبایں کہ ایک سر ا تو پودے کے ساتھ جڑا رہے اور دوسرا حصہ سرا مٹی سے باہر رہے جبکہ درمیان والا حصہ مٹی میں دبا ہوا ہو، اس طرح سے کچھ دنوں کے بعد مٹی میں دبے ہوئے حصے سے جڑیں نکلنا شروع ہوجائیں گی اور نیا پودا بن جائے گا، پھر احتیاط سے بڑے پودے والے تنے کی طرف سے شاخ کو کاٹ دیں اورنئے پودے کو ضرورت کے مطابق دوسری جگہ منتقل کردیں۔
اسی طرح اگر اس کے بیج آپ اکٹھے کرلیں تو ان کو بو کر بھی نئے پودے حاصل کرسکتے ہیں۔ ٹھنڈے علاقوں میں اکتوبر جبکہ میدانی علاقوں میں نومبر کے درمیان گل داؤدی کے پودے پر کلیاں نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں چونکہ یہ ایک جھاڑی نما پودا ہے اس لئے ٹہنیوں کو سہارا دینے کے لئے لکڑی کی چھڑیوں یا بھاڑ لگا کر یا رسی ،تاروں وغیرہ سے سہارا دیا جاتا ہے۔ جب کلیاں نمودار ہورہی ہوتی ہیں تو ان کو سہارادیا جاتا ہے تاکہ ٹہنیاں ایک خوبصورت انداز میں نمایاں ہوکر پھولوں کی بہاربکھیرتی رہیں۔
اسی طرح اگر اس کے بیج آپ اکٹھے کرلیں تو ان کو بو کر بھی نئے پودے حاصل کرسکتے ہیں۔ ٹھنڈے علاقوں میں اکتوبر جبکہ میدانی علاقوں میں نومبر کے درمیان گل داؤدی کے پودے پر کلیاں نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں چونکہ یہ ایک جھاڑی نما پودا ہے اس لئے ٹہنیوں کو سہارا دینے کے لئے لکڑی کی چھڑیوں یا بھاڑ لگا کر یا رسی ،تاروں وغیرہ سے سہارا دیا جاتا ہے۔ جب کلیاں نمودار ہورہی ہوتی ہیں تو ان کو سہارادیا جاتا ہے تاکہ ٹہنیاں ایک خوبصورت انداز میں نمایاں ہوکر پھولوں کی بہاربکھیرتی رہیں۔
ہر سال دنیاں کے بیشتر ممالک میں گل داؤدی کی نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں ۔ چین ، جاپان اور بعض دیگر ایشیائی ممالک میں بہت بڑے پیمانے پر یہ نمائش ہوتی ہے۔ ان نمائشوں میں گل داؤدی کے پھولوں کو خوبصورت سجاوٹی سانچوں اور ڈھانچوں پر چڑھاکر خوبصورت ماڈل بنائے جاتے ہیں جو دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی گل داؤدی کی نمائش ہر سال اسلام آباد، راولپنڈی ، جہلم، لاہور، پشاور اور کراچی میں ہوتی ہے۔ پشاور میں گل داؤدی کی نمائش ہر سال دسمبر کے مہینے میں پشاور کینٹونمنٹ بورڈ کے زیر اہتمام منعقد کی جاتی ہے جس میں کئی کیٹیگریز میں ان خوبصورت پھولوں کی سجاوٹ کے مقابلے ہوتے ہیں، جن میں طلبہ طالبات سے لے گھریلوخواتین کے درمیان ان پھولوں سے گھر کے اندر گلدانوں میں سجاوٹ کے مقابلے، گھروں اور باغات کی کیٹیگری میں مقابلے اور مختلف دفاتر، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے درمیان بھی مقابلے رکھے جاتے ہیں اور باقاعدہ انعامات بھی تقسیم کی جاتی ہیںجن سے پھولوں سے محبت کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔