Aik Nai Jamaat Ka Qayam - Anwar Lodhi


ایک نئی جماعت کا قیام
از انور لودھی

ہارون رشید اور خورشید ندیم صاحب نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جو ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام سے متعلق ہے۔ ان محترم اصحاب کی سوچ کے پیچھے دو نقاط کار فرما ہیں۔ ایک یہ کہ تحریک انصاف کی اٹھان سیاسی نظام میں اچھے کردار کے حامل نظریاتی لوگوں کو سامنے نہیں لا سکی۔ وہی لوگ جو کبھی نون لیگ سے ٹکٹ نہ ملنے پر پیپلز پارٹی کا رخ کرتے تھے آجکل پی ٹی آئی ان کا دوسرا ٹھکانہ بن چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ جماعت اپنی سیاسی ناپختگی اور کمزور تنظیم صلاحیت کی وجہ سے شائد کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اگرچہ میں اس تجزیہ سے اتفاق کرتا ہوں لیکن میری ناقص رائے میں تحریک انصاف کی ان خامیوں کو بنیاد بنا کر اس کے مستقبل سے مایوس ہونا اگر منطقی طور پر غلط نہیں تو قبل از وقت ضرور ہے۔
اگرجائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہے کہ تحریک انصاف کی کارکردگی اگرچہ شاندار نہیں لیکن اتنی بھی گئی گزری نہیں کہ مایوسی ہمیں گھیر لے۔ تنظیمی طور پر غیر موثر ہونے اور پارلیمنٹ میں ناقص کارکردگی کے باوجود اس جماعت نے عوامی مسائل کے حوالے سے حکومت کو موثر طور پر دباؤ میں رکھا ہے۔ الیکشن کے حوالے سے بہت سی خامیوں کو منظر عام پر لانا اور انتحابی نظام میں ریفارمز کے حوالے سے قومی سطح پر بحث اسی جماعت کے جدوجہد کا نتیجہ ہے ورنہ آج تک دھاندلی کے حوالے سے نہ کبھی کمیشن بنا ، نہ انتحابی نظام میں موجود خامیوں کو درست کرنے کے لئے کسی جماعت نے ملکی سطح پر اتنی ذبردست جدوجہد کی۔ الیکشن ریفارمز سے ہٹ کر روز مرہ کے عوامی مسائل پر بھی تحریک انصاف موثر آواز اٹھائی ہے۔ پٹرول کی قیمیتیں حکومت نے اس وقت تک کم نہ کیں جب تک عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر اس مسئلے پر آواز نہ اٹھائی۔ اسکے علاوہ بجلی کا مشئلہ ہو یا ڈیمز کا ایشو، کرپشن کا ناسور ہو یا بیورو کریسی کا فرسودہ نظام، ہر مسئلہ پر تحریک انصاف نے میڈیا پر اور عوامی احتجاج کے ذریعے مرکزی حکومت میں بیٹھے ارباب اختیار کو جھنجھوڑا ہے۔ جب کے سرکاری اہوزیشن پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سب نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے مجرمانہ خاموشی برقرار رکھی۔
اب اگر خیبر پختونخواہ کی حکومتی کارکردگی کو جانچا جائے تو وہ مرکز اور پنجاب میں بیٹھے نام نہاد "تجربہ کاروں" سے بہت بہتر رہی ہے۔ پلڈاٹ کی حالیہ رپورٹ پڑھ لیں جس میں تحریک انصاف کی حکومت کو باقی تمام حکومتوں پر کارکردگی کے حوالے سے برتری حاصل ہے۔ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنا، کرپشن کا خاتمہ، پٹؤاری کی بادشاہت کا خاتمہ، بہتر بلدیاتی نظام کا قیام، سرکاری ٹھیکوں کی شفاف نیلامی، رائٹ ٹو انفارمیشن کے قانوں کا نفاز، سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لئے بائئیو میٹرک سسٹم کی تنصیب اور ہسپتالوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے قانون سازی، یہ سب اقدامات تحریک انصاف کی کارکردگی کو اگرجہ مثالی قرار دینے کے لئے ناکافی ہیں لیکن مایوس کن بھی ہرگز نہیں۔ خیبر پختونخواہ حکومت ترقیاتی کاموں کی رفتار بہتر بنا کر اور اپنی تنظیم سازی پر میں بہتری لا کر عوام میں اپنی سپورٹ کو وسیع کر سکتی ہے۔
جہاں تک محترم خورشید ندیم کا موجودہ سیاسی اشرافیہ کا بیک وقت نون لیگ اور تحریک انصاف میں شمولیت پر اعتراض ہے تو یہ عصر حاضر کی جمہوری ریاستوں میں مروجہ سیاسی تعامل کی حقیقتوں سے صرف نظر کرنا ہے۔ خورشید ندیم صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ امریکہ سے لیکر برطانیہ تک سب جگہ سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ سیاسی اشرافیہ ہی ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتی ہے جو مختلف خیالات اور نظریات کی حامل جماعتوں میں بٹ کر نہ صرف ان ممالک کی سیاست کوکنٹرول کرتی ہیں بلکہ مسابقتی عمل کے ذریعے نظام حکومت میں بہتری کا سبب بھی بنتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں موجود اشرافیہ نے نظام کو بہتر بنانے کی بجائے اس کی خامیوں کو استعمال کر کے عوام کا بری طرح استحصال کیا ہے ۔ لیکن اس کا سبب نظام کی خامیاں،سیاسی جماعتوں کے قائدین کی اپنی اخلاقی کمزوریاں اور مال بنانے اور اقتدار پر قبضہ کی حوس ہے۔ تحریک انصاف سے امید اس لئے بھی باندھی جاسکتی ہے کہ اس میں موجود اشرافیہ کے افراد نسبتا صاف ستھرے کردار کے حامل اور نظام میں بہتری کے لئے مخلص ہیں۔ جہانگیر ترین پاکستان میں سب سے ذیادہ ٹیکس دینے والا آدمی ہے۔ اسد عمر پر بھی صاف کردار کا حامل پڑھا لکھا شخص ہے۔ عارف علوی،عمران اسماعیل بھی کرپشن سے پاک ہیں اور سب سے بڑھ کر اس جماعت کے لیڈر پر بھی کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے۔ عملی طور پر بھی تحریک انصاف نے نظام میں بہتری اور اشرافیہ کی مالی خرابیوں پر قابو پانے کا مظاہرہ خیبر پختونخواہ میں کیا ہے جہاں اوپر کی سطح پر اشرافیہ کی کرپشن کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ اسکا ثبوت بیورو کریسٹس اور منسٹر کی مالی بے ضابطگیوں پر گرفتاری ہے۔
ویسے بھی پاکستان میں موجودہ سیاسی اشرافیہ کے بغیر کسی نئی سیاسی جماعت کی کامیابی پاکستان کے مخصوص سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں ممکن نہیں۔ پاکستانی عوام اپنی مخصوص نفسیات اور سطحی سیاسی شعور کے زیر اثر محض سیاسی نظریات کی بنیاد پر کسی جماعت کی پیروی نہیں کرتی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاسی نظریات سے ذیادہ کرشماتی لیڈر کو لوگوں نے اہمیت دی ہے۔ جماعت اسلامی جیسی صالحین کی جماعت ہو یا تحریک استقلال جیسی نظریاتی تنظیم، یا طاہرالقادری کی منظم عوامی تحریک۔ یہ سب جماعتیں پاکستانی عوام کے اس نفسیاتی پل صراط کو عبور نہ کر سکیں۔ یہ ایک سیاسی حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاسی نظریات سے ذیادہ لیڈر کے پیچھے چلتے ہیں اور اس وقت عمران خان لیڈر بن چکا ہے اور اس سے بھی ذیادہ اہم یہ ہے کہ اس کے ساتھ مخلص اور بہتر اشرافیہ بھی ہے۔ اگر چہ کچھ نسبتا کمزور کردار کے حامل الیکشن کے گھوڑے بھی پی ٹی آئی کو درکار ہیں لیکن عمران نے خیبر پختونخواہ میں ثابت کیا ہے کہ وہ ایک مضبوط احتسابی نظام کو نافذ کر کے بدعنوان لوگوں کو قابو کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
میری رائے میں تحریک انصاف سے امید توڑنا قبل از وقت اور ایک کرشماتی لیڈر کی غیر موجودگی میں کسی نئی جماعت کی کامیابی فی الحال ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔