زبان
از سید تنزیل اشفاق
چار حروف پر مشتمل ایک لفظ، جو ایک عضو کا مظہر ہے۔ یہ عضو بشمول انسان تمام جانوروں میں پایا جاتا ہے۔ ہر جانور میں بقدرے اس کی ساخت مختلف ہے۔ اس کا سب سے بڑا استعمال تو کھانا کھانے میں معاون کا سا ہے مگر اس کے علاوہ بھی اس کے بہت سارے کارنامے ہیں جو یہ سرانجام دیتی ہے۔ ہماری گفتگو صرف انسانی زبان کے گرد ہی گھومے گی۔
انسانی زبان ۳۲ محافظوں میں گھری رہتی ہے اس بات سے آپکو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ زبان کی اہمیت کیا ہے۔انسانی زبان بولنے، چکھنے ، کھانے اور سیٹی بجانے کے کام آتی ہے۔ انسانی زبان عموما ۴ انچ لمبی ہوتی ہے۔ مردوں کی زبان ۷۰ گرام جبکہ خواتین کی زبان ۶۰ گرام ہوتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ خواتین کی زبان زیادہ تیزی سے چلتی ہے شائد اس کی وجہ خواتین کی زبان کا کم وزن ہونا ہے۔ انسانی زبان، کسی بھی انسان کی عزت اور بے عزتی کا باعث ہوا کرتی ہے۔ اگر انسان اس کا استعمال سوچ سمجھ کر کرے تو انسان کی وقعت میں اضافہ کر دیتی ہے۔ اور اگر بغیر سوچے سمجھے یہ چلنا شروع ہو جائے تو انسان کو "چھتر" بھی پڑواتی ہے۔
کسی بادشاہ نے جناب لقمان حکیم کو ایک بکری دی اور کہا کہ لقمان، مجھے اس بکری کے جسم کا بہترین حصہ ذبح کر کے دو۔ لقمان حکیم نے بکری ذبح کی اور اس بکری کی زبان تشت میں رکھ کے بادشاہ کو پیش کی۔ اگلے دن پھر اُسی بادشاہ نے دوباری حضرت لقمان کو وہی حکم صادر کیا اور کہا، لقمان یہ بکری لو اور ذبح کر کہ مجھے اس بکری کا بدترین حصہ دو۔ جناب لقمان نے حسبِ سابق بکری ذبح کی اور دوباری بکری کی زبان تشت میں رکھ کر بادشاہ کو پیش کر دی۔ بادشاہ حیران ہوا اور حیرت کے مارے جناب لقمان سے سوال کیا، لقمان میں نے آپکو پہلے دن بکری دی اور کہا کہ اس بکری کا بہترین حصہ دو آپ نے زبان دی، آج پھر میں نے آپکو بکری دی اور اس بکری کے جسم کا سب سے برا حصہ مانگا تب بھی آپ نے زبان دی اس کی وجہ کیا ہے۔ جناب لقمان گویا ہوئے، اگر یہ زبان اپنے معیار اور تہذیب کے مطابق عمل کرےتو اس سے اچھا عضو کوئی نہیں اور یہی زبان اگر بدکلامی پر اتر آئے تو اس سے ذیادہ برا حصہ کوئی نہیں۔ حضرت علی کےفرمان کا مفہوم ہے یہ زبان ایک بے وقوف کا پردہ ہے، جب تک چپ رہے انسان کی بےوقوفی پر پردہ پڑا رہتا ہے، جیسے ہی یہ گویا ہوتی ہے تمام پردے گر جاتے ہیں اور بے وقوف بے نقاب ہو جاتا ہے۔
زبان کا اردو لغت نے بھی خوب رگڑا لگایا ہے۔ زبان کے متعلق جتنے محاورے مشہور ہیں شائد کسی اور کے متعلق نہ ہوں۔ اردو کے چند دلچسپ محاورے ملاحضہ ہوں۔۔
زبانی جمع خرچ کرنا، زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم، زبان ہی حلال ہے زبان ہی مردار ہے، زبان میں کھجلی ہونا، زبان کا ٹانکا ٹوٹنا، زبان زد خاص و عام، زبان خلق نقارہ خدا اور اسکے علاوہ بھی کافی شہر آفاق مہاورے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں زبان کے متعلق دو محاورے کثرت سے بولے جاتے ہیں، اپنی زبان بند رکھو اور میں تمہاری زبان نکال دوں گا۔ یہ زبان ہی ہے جس کی بدولت ایک طرف تو قاری قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، اور دوسری جانب جاہل اسی سے گالی گلوچ۔ آج کل کے ۷۰-۸۰ فیصد جھگڑے اسی زبان کی بدولت ہیں۔ اگر ہم صرف زبان کو ہی اپنے دائرہ اختیار میں لے آئیں تو اکثر جھگڑے ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں۔
یہ زبان اللہ کی نعمت ہے، اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔