اپنے دل و دماغ سے کسی کی یادیں مٹانے کے کامیاب اور آزمودہ طریقے۔۔۔۔
(اپنے آپ کو مختلف دنیاوی سرگرمیوں میں مصروف کرلیں۔ تنہائی سے خاص کر پرہیز کریں۔ قریبی لوگوں اور دوستوں کی محفل میں زیادہ سے زیادہ بیٹھیں)
(تمام دکھ سکھ اس دل سے جنم لیتے ہیں، یہ ایک بھولا بچہ ہے، جو جس طرف جھکاؤ دیکھتا ہے، اس طرف اپنا ڈیرہ ڈال دیتا ہے۔ دکھوں کے موقع پر اس کو بیووقوف بنانے کے طریقہ یہ ہے کہ جب یہ کوئی گزری ہوئی یادیں پیدا کرے یا غم کے لمحات یاد کروائے، فوراً اپنے ذہن کو کسی اور طرف لے جائیں۔ اور جو بھی خیال پیدا کر کے آپ کو رلانے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کو بیچ میں ہی ٹوک دیں۔ کچھ اور سوچنا شروع کر دیں۔ اگر آپ یہ عمل اپنی زندگی میں دہراتے جائیں گے۔ تو آپ کے دل اس عادت کو آہستہ آہستہ اپناتا جائے گا۔ اور پھر آپ تک مثبت سگنل ہی بھیجے گا۔ آپ کچھ عرصے کے بعد نوٹ کریں گے کہ آپ میں عام لوگوں جیسے نہیں رہے۔ آپ کی قوت برداشت میں اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔)
(محبوب کوئی بھی ہو سکتا ہے ماں، باپ، بھائی۔ ضروری نہیں صرف صنف نازک ہی ہو۔۔۔۔۔۔ہمارے دل کو کنکشن پیدا کرنے میں بہت ایکسپرٹ ہے، جب بھی یہ کوئی بات سنتا ہے یا آنکھوں کے ذریعے کسی چیز کا امیج اس کے اندر ٹرانسفر ہوتا ہے۔ تو یہ فوراً اس آواز یا امیج کے کنکشن پیدا کرنے شروع کر دیتا ہے۔ یہ آواز میں نے کہاں سنی تھی۔ ہاں فلاں پارٹی میں۔ وہ پارٹی کس کی تھی؟ شاید کالج پارٹی تھی۔ پھر اس دن پارٹی میں جو کچھ اسپیشل ہوا ہوتا ہے، باری باری وہ سب یاد کرواتا ہے۔ مختصراً یہ کہ صرف سکینڈ کے بھی چند لمحوں میں دل آپ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے۔ اب جب آپ کوئی ایسی چیز دیکھتے ہیں جو کہ آپ کے محبوب سے متلعقہ ہوتی ہے۔ تو پھر دل اس کے ساتھ بیتے لمحات یاد کروانا شروع کر دیتا ہے۔ اور آخر آپ کو رلا کر ہی چھوڑتا ہے۔ اس لیے محبوب کی جدائی کا غم ٹھنڈا کرنے کیلئے ایسی اشیاء کو جلا دیں، پھاڑ دیں یا ردی میں دے آئیں۔)
(جب کسی کا عزیز بچھڑتا ہے تو اس انسان کی جیسے دنیا ہی ویران ہو جاتی ہے۔ نہ کچھ کھانے کو دل کرتا ہے نہ کسی طرح بہلتا ہے۔ بس دل و دماغ میں سناٹا ہوتا ہے۔ آںکھوں میں آںسو ہوتے ہیں۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوتا ہے۔ کیا سوچ رہا ہوتا ہے۔ اسے خود بھی نہیں پتہ ہوتا۔ ایسی حالت میں انسان کو خود اپنے اندر ہمت جمع کرنی پڑتی ہے۔ اور جو یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسے ہی تو اللہ کا قرآن "الصابرین" کے لقب سے نوازتا ہے۔
یہ ہمت کیسے جمع کی جائے۔ ہر چیز کا اینٹی(متضاد) ہوتا ہے جیسا کہ log کا Anti-log اور Virus کا Antivirus اور Batic کا Anti-batic ۔ اس طرح غموں کے لمحات کا بہترین Anti خوشیاں ہیں، مسکراہٹیں ہیں۔ اپنے آپ کو بلکہ دل کو خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ پرانی یادوں میں الجھنے کی بجائے گہرا سانس لے کر دل کو پرسکون کریں۔ اور وہ لمحے دہرائیں جب آپ کھل کر ہنسے تھے۔ یاد کرتے جائیں اور مسکرانے کی کوشش کرتے جائیں۔ اگر پھر بھی مسکراہٹ نہیں آ رہی تو کوئی مزاحیہ پروگرام لگا لیں، لطیفے پڑھ لیں۔ یا کسی مقام پر دوستوں کے ساتھ سیر کو نکل جائیں۔ یا پھر کسی موضوع پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بات شروع دیں)
(یہ دنیا ہے۔ یہاں کوئی خوش نہیں ہے۔ کوئی خود کیلئے پریشان ہے تو کسی کیلئے۔ کوئی اپنے لیے روتا ہے تو کوئی کسی کیلئے۔ اس میں انسان کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے۔ تو اسے صرف وہی دکھائی دیتا ہے۔ سوتے، جاگتے، اٹھتے، چلتے، پھرتے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ہر بات اپنے محبوب سے شیئر کرے۔ دونوں طرف برابر کی آگ لگی ہوتی ہے۔ لیکن پھر اچانک اللہ کا فیصلہ آ جاتا ہے۔ جو کہ برحق ہوتا ہے۔ ہر صورت میں ماننا ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد جدائیوں کی گھڑیاں آتی ہیں۔ یہی وقت ہوتا ہے جہاں کچھ سنبھلنے والے سنبھل جاتے ہیں۔ اور کچھ اپنی زندگی کا خاتمہ کر بٹھتے ہیں۔ یہاں ایک پتی کی بات بتاؤں۔ یہ جولوگ سنبھل جاتے ہیں۔ یہ حقیقی کامیاب انسان ہوتے ہیں۔ ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ اور یہی لوگ ہوتے ہیں۔ جو اپنے رب سے کہتے ہیں۔ اللہ جیسے تو راضی، ویسے میں راضی۔ ان کی زبان پر کوئی شکوہ نہیں ہوتا۔ بس لبوں پر ایک دعا ہوتی ہے اللہ میرے حصے کی خوشیاں بھی اسے مل جائیں۔ اور آنکھوں میں آنسوں۔)