آرائیں کہاں سے آئے تھے؟
آرائیں ذات کے آباؤاجداد اریحائی فلسطینی عرب تھے، جو 712ء ميں دریائے اردن کے کنارے آباد شہر اريحا سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ محمد بن قاسم کے ساتھ برصغير ميں داخل ہونے والی فوج کی تعداد 12,000 تھی، جس میں سے 6,000 اریحائی تھے۔ محمد بن قاسم تقریباً 4 سال تک سندھ میں رہے۔ اسی دوران گورنر عراق حجاج بن یوسف اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کا یکے بعد دیگرے انتقال ہوگیا۔ خليفہ سلیمان بن عبدالملک نے تخت نشینی کے بعد حجاج بن یوسف کے خاندان پر سخت مظالم ڈھائے۔ اسی دوران اس نے محمد بن قاسم کو بھی حجاج بن یوسف کا بھتیجا اور داماد ہونے کے جرم میں گرفتار کرکے عرب واپس بلایا، جہاں وہ 7 ماہ قید میں رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔خليفہ کی ان ظالمانہ کارروائيوں کی وجہ سے اریحائی فوجیوں نے اپنے آبائی وطن واپس نہ جانے اور برصغیر ہی میں ہی قيام کا فيصلہ کرليا۔ خلیفہ کے عتاب سے بچنے کیلئے انہوں نے فوج کی ملازمت چھوڑ دی اور کھیتی باڑی کواپنا ذریعہ معاش بنا لیا۔ کچھ عشروں بعد وہ آہستہ آہستہ وسطی اور مشرقی پنجاب کی طرف چلے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی اگلی نسلیں پورے برصغیر میں پھیل گئیں۔
اریحائی یا الراعی سے آرائیں
صدیوں تک غیرعرب علاقے میں رہنے اور مقامی آبادیوں کے ساتھ گھل مل جانے کی وجہ سے عرب اریحائی جہاں اپنی عربی زبان چھوڑ کر عجمی ہوگئے، وہاں انہوں نے برصغیر کی مقامی زبانوں پر بھی گہرا اثر چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی زبانوں میں بےشمار عربی الفاظ شامل ہوتے چلے گئے۔ مقامی لوگوں کیلئے عربی کے حرف ’ح‘ کا اصل تلفظ کرنا مشکل تھا اور لفظ اریحائی وقت کے ساتھ ساتھ ’’ارائی‘‘ پھر ’’ارائیں‘‘ اور پھر بالآخر آرائیں بن گیا۔
ایک دوسرے امکان کے مطابق پہلے اریحائی لفظ الراعی سے تبدیل ہوا، جو عربی کا ہی ایک لفظ ہے، جس کے معنی چرواہے کے ہیں۔ الراعی میں ’ر‘ حرف شمشی ہے، جب اس سے پہلے ’الف لام‘ لگتا ہے تو ’الف‘ بولا جاتا ہے اور ’ل‘ حذف ہوجاتا ہے، یوں ’الراعی‘ سے اراعی ہوگیا۔ عجم حرف ’ع‘ کی ادائیگی نہیں کرتے، اس لئے حرف ’ع‘ حرف ’ء‘ کے ساتھ تبدیل ہوگیا، یوں ارائی سے جمع کی صورت میں ارائیں ہوگیا۔
ایک اور ضیعف روایت کے مطابق یوں بھی بعض کتب میں لکھا ہے کہ آرائیں آریان تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں، جس کا پتہ ہڑپہ سے چلتا ہے، جہاں وہ لوگ تین ہزار قبل مسیح آباد تھے۔اس کے علاوہ ایک اور روایت بھی موجود ہے کہ یہ لوگ وسط ایشیائی ریاستوں سے برصغیر آئے تھے۔
مذکورہ بالا ضعیف روایات کی تردید میں آج کی آرائیں ذات کو ماضی کے اریحائی ثابت کرنے والے کہتے ہیں کہ برصغیر میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کے برخلاف آرائیوں کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اگر یہ کسی آریان تہذیب کی نسل سے ہوتے تو دیگر نومسلم ذاتوں کی طرح ان کی اتنی کثیر آبادی کا بیس تیس فیصد حصہ یقیناً ہندو یا سکھوں پر مشتمل ہوتا۔
محمد بن قاسم (علیہ رحمہ)کے لشکر سے آرائیں لفظ کی تشریح راجہ داہر کی قید میں ایک مسلمان لڑکی کی آواز پر لبیک کہنے والا بارہ ہزار عوام کا اسلامی لشکر چار حصوں پر مشتمل تھا پہلا حصہ کا نام مقدمتہ الجیش تھا جو کہ تھوڑے سے آدمیوں پر مشتمل تھا اور لشکر سے تین چار میل آگے سے راستہ کی راہنمائی کر رہا تھا ۔باقی دائیں طرف کا لشکر (میمنہ) اور بائیں طرف والا (میسرہ) اور درمیان والے لشکر کا نام( قلب )تھا ۔ ہر اسلامی لشکر کے پاس ایک جھنڈا ہوتا تھا جس کو فوج ہر صورت میں بلند رکھتی ہے ۔اور جنگ کے اختتام پر یہ مفتوحہ زمین پر گاڑ دیا جاتا ہے ۔اس جھنڈے کا ذکر نبی اکرم محمد ( صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ) نے جو غزوات خود لڑے ان میں بھی ہے اور صحابہ اکرام (ر ضوان اللہ تعالی اجمعین )نے ان کو گرنے سے بچانے کے لیے شہادتیں نوش فرمائیں ہیں ۔ اس فتح کے نشان والے جھنڈے کا نام (الرائیہ) ہوتا تھا۔ فتح کے بعد اس شامی فوج کے سپاہی کو الرائیہ کی نسبت سے الرائیی کہا جانے لگا لفظ الرائیی عربی میں جب بولا جاتا ہے تو سننے میں آرائیں ہوتا ہے کیونکہ اسکے بعد ل بولی نہیں جاتی ۔الرائیی لفظ کو انگلش میں آرین کہتے ہیں۔
انگلش تاریخ دانوں نے جو یہ لکھا ہے کہ آرین نے یورپ سے آکر یہاں حملہ کیا اور آباد ہوئے بالکل ٹھیک لکھا ہے کیونکہ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت شام میں اسلامی خلافت اور دنیا کی سپر پاور تھی اور اس سلطنت کے علاقے یورپ میں بھی تھے اس وقت جب یہ لشکر شام کے جس علاقے سے بھیجا گیا وہ آج بھی شامی علاقہ یورپ کی حدود میں واقعہ ہے.۔خلاصہ کلام یہ کہ آرائیں قوم برصغیر پاک وہند میں عرب سے محمد بن قاسم کی قیادت میں ہی آئی تھی۔جو بعد میں مستقل طور پریہاں رہائش پذیر ہوگئی۔ان میں زیادہ تر لوگ آج بھی کھیتی باڑی کے شعبے سے ہی منسلک ہیں۔ واللہ اعلم