سالوں پہلے کی بات ہے ۔ ایک مولانا صاحب برطانیہ میں ایک مسجد کے امام تھے۔ روزانہ گھر سے مسجد جانے کے لئے بس پر سوار ہونا ان کا معمول بن چکا تھا۔
لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس میں سوار ہوئے اور ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لے کر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیے ہوئے باقی پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھا تو پتا چلا کہ بیس پینس زیادہ آگئے ہیں۔ امام صاحب سوچ میں پڑ گئے
اور پھر اپنے آپ سے کہا
یہ بیس پینس اترتے ہوئے واپس کردیں گے کیونکہ یہ ان کا حق نہیں بنتا"۔"
پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پروا کرتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں روپے بھی تو کماتی ہے۔ ان تھوڑے سے پیسوں سے ان کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا۔ میں ان تھوڑے سے پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں او رچپ ہی رہتا ہوں۔
بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رکی تو امام صاحب نے اترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پینس واپس کرتے ہوئے کہا
یہ لیجئے بیس پینس ، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مجھے زیادہ دے دیے ہیں"۔"
ڈرائیور نے بیس پینس لیتے ہوئے مسکرا کر کہا کہ
کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟؟؟
"!جی ہاں"
ڈرائیور بولا: میں بہت عرصے سے آپ کی مسجد میں آکر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پینس میں نے جان بوجھ کر زیادہ دیے تھے تاکہ معمولی رقم کے بارے میں آپ کا رویہ پرکھ سکوں۔
امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اترے، انہیں ایسا لگا جیسے ان کی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے۔ گرنے سے بچنے کیلئے انہوں نے
کھمبے کا سہارا لیا۔ آسمان کی طرف چہرہ اُٹھا کر روتے ہوئے دعا کی
یاللہ مجھے معاف کر دینا، میں اپنے اسلام کو بیس پینس میں بیچنے لگا تھا"۔"
لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس میں سوار ہوئے اور ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لے کر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیے ہوئے باقی پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھا تو پتا چلا کہ بیس پینس زیادہ آگئے ہیں۔ امام صاحب سوچ میں پڑ گئے
اور پھر اپنے آپ سے کہا
یہ بیس پینس اترتے ہوئے واپس کردیں گے کیونکہ یہ ان کا حق نہیں بنتا"۔"
پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پروا کرتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں روپے بھی تو کماتی ہے۔ ان تھوڑے سے پیسوں سے ان کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا۔ میں ان تھوڑے سے پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں او رچپ ہی رہتا ہوں۔
بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رکی تو امام صاحب نے اترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پینس واپس کرتے ہوئے کہا
یہ لیجئے بیس پینس ، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مجھے زیادہ دے دیے ہیں"۔"
ڈرائیور نے بیس پینس لیتے ہوئے مسکرا کر کہا کہ
کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟؟؟
"!جی ہاں"
ڈرائیور بولا: میں بہت عرصے سے آپ کی مسجد میں آکر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پینس میں نے جان بوجھ کر زیادہ دیے تھے تاکہ معمولی رقم کے بارے میں آپ کا رویہ پرکھ سکوں۔
امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اترے، انہیں ایسا لگا جیسے ان کی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے۔ گرنے سے بچنے کیلئے انہوں نے
کھمبے کا سہارا لیا۔ آسمان کی طرف چہرہ اُٹھا کر روتے ہوئے دعا کی
یاللہ مجھے معاف کر دینا، میں اپنے اسلام کو بیس پینس میں بیچنے لگا تھا"۔"