میرا پہلا روزہ، ماضی کے دھندلکوں میں جھانکتے ہوئے اُس پہلے روزے کو بہت ڈھونڈا مگر کچھ بھی یاد نہ آیا۔ شعیب صفدر بھائی نے بہت ہی مزے کی تحریر لکھ ڈالی، اپنے بچپن کی معصوم شرارتوں بھرے رمضان کی کہانی سنائی اور پھر ہمارا بھی امتحان لینے کیلئے اپنی تحریر کے آخر میں حکم صادر فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی لکھو۔ میری بھی عجیب طبعیت ہے جب کوئی لکھنے کا کہتا ہے تو جیسےاُنگلیاں جام ہوجاتی ہیں، قلم کو زنگ لگ جاتا ہے، کی بورڈ سے الرجی ہوجاتی ہے اور ذہن پر ایک ایسا خول چڑھا لیتے ہیں جہاں لکھنے لکھانے کی سوچ بھی داخل نہیں ہوپاتی، خیر آج صبح جب کوثر بیگ صاحبہ کی تحریر پڑھی تو احساس ہوا کہ اب کچھ لکھ ہی لینا چاہئے کیونکہ وہ بھی اُس لسٹ میں تھیں جن کو لکھنے کا حکم ہوا ہے۔ مجھے اپنا پہلا روزہ یاد تو نہیں لیکن بچپن کی اور لڑکپن کی رمضان کی کچھ یادیں ماضی کی جھروکوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کچھ اُلٹی سیدھی تحریر کررہا ہوں یہاں۔
میرا بچپن مینگورہ(سوات) اور پھر داجی (اباجی) کی پوسٹ کی وجہ سے مردان، صوابی اور پشاور میں گزرا۔ مجھے یاد پڑرہا ہے کہ میرے بچپن میں جب میں سکول نہیں جایا کرتا تھا تب رمضان ایسی ہی شدید گرمیوں میں آیا تھا کیونکہ گھر میں جو برف کے بڑے بڑے ٹکڑے بازار سے آتے تھے وہ اور سرخ شربت روح افزاء خوشبو ابھی تک روح میں رچی بسی ہے اور افطار اس کے بغیر نامکمل ہی رہتا ہے۔ جب افطاری کا وقت قریب ہوتا تو گھر والے ہم بچوں کو چھوٹے چھوٹے برتنوں میں افطاری کی بہت ساری چیزیں دے کر چھت پر بھیج دیتے تھے۔ گھر میں میرے علاوہ میری بہن تھی جو اُس وقت بہت چھوٹی تھی۔ میرے محلے میں میری عمر کے اور بھی دوست تھے اور ہمارے گھروں کی چھتیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں۔ گھر والے ہمیں افطاری کی اشیاء دے کر چھت پر بھیج دیتے تھے اور ہم سارے بچے مل ایک جگہ افطاری کیلئے بیٹھ جاتے تھے جبکہ بڑے گھروں میں تسلی سے بیٹھ کر افطاری کرتے تھے اور ہمارے جیسے شریر بچوں سے محفوظ رہتے تھے، پھر بھی وقفے وقفے سے چھت کی کچھی منڈیروں پر آکے کبھی شربت مانگتے، کبھی اچار، کبھی سالن اور کبھی فروٹ اور اسی چکر میں کئی دفعہ میں اس منڈیر سے گرا بھی ہوں کیونکہ ایک ہاتھ سمیت آدھا جسم نیچے لٹکا جُلاتے اور چلاتے ہوئے امی سے فرمائیشیں کیا کرتے تھے، مگر اچھی بات یہ تھی کہ چھت اتنی اونچی نہیں تھی ورنہ آج یہ پوسٹ آپ نہ پڑھ رہے ہوتے۔جیسے ہی افطاری کا وقت قریب ہوتا ہم سارے بچے ایک ہی جملہ بار بار زور زور سے اُونچی آواز سے دھراتے "بانگی روجے ماتی (بانگ دے، روجی ماتی( یعنی آزان ہو رہی ہے روزہ افطارکھول لو"۔ اس ایک جملے کے آگے بھی کچھ تھا جو مجھے اب یاد نہیں۔ سارے بچے کھیل کھیل میں چھتوں پر افطاری کرتے اور بڑے آرام سے گھرمیں برآمدے میں بیٹھ کر روزہ افطار کرلیتے۔ سوات میں سٹیٹ کے وقت سابق والئی سوات نے حکم کے مطابق عین افطاری و سحری کے وقت توپ داغا جاتا تھا (جیسے شہروں میں سائرن بجائے جاتے ہیں یا ڈھول والا ڈھول پیٹ کر اعلان کیا کرتا تھا یا کہیں کہیں نغارے بجتے تھے)جس کی آواز دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ اس کے بارے میں سوات کے عام عوام نے پشتو زبان میں ایک چھوٹی سی نظم بنا ڈالی تھی جو میں یہاں اُردو رسم الخط میں تحریر کررہا ہوں
ڈز پہ مازیگر اوکہ
نغدی روپئی واخلہ
گل اندامے لہ پنڑے اوکہ
گل پہ دہ تیلے اوکہ
ترجمہ: جمعہ خان بھائی توپ داغ دو، اور وہ بھی سورج دھلتے وقت، یہ پیسے لے لو اور گل اندامہ کیلئے اس پہ کھسہ لے لو اور اُس پر تلے والے پھول بنو اکر۔
جمعہ خان اور سوات (سیدو شریف ) میں افطاری و سحری کے وقت توپ داغنے کی تاریخ جناب پروفیسر عثمان صاحب نے فیس بک پیج "سوات نامہ" پر کچھ یوں تحریر کی ہے کہ جمعہ خان سوات سٹیٹ کا ملازم تھا جو سوات سٹیٹ کے حکم پر سیدوشریف میں واقع "سوات فیکٹری" میں افطار اور سحر کے وقت ایک کھانے پکانے والے بڑے پتیلے نما سلور کے بنے بارودی مواد کے آلے سے توپ داغا کرتے تھے۔ جس میں بلیک گن پاؤڈر اور فیوز وائر استعمال ہوتی تھی۔ والئی سوات کے بنگلے کی مسجد کی آزان کے فوراً بعد بالیگرامہ (سیدوشریف) کے میدان میں اس فیوز وائر یعنی بتی کو آگ لگائی جاتی تھی اور توپ داغا جاتا تھا جس کا مقصد تمام علاقے میں ایک ساتھ روزہ کی افطاری اور سحری کرنا ہے۔
میرے داجی کی پوسٹنگ اُن دنوں مردان میں تھی، جب میرے سکول میں داخلےکی عمر ہوئی تو دادا کی حکم پر ہم لوگ داجی کے پاس مردان شفٹ ہوگئے۔ یہاں پر ایک رمضان ہی گزرا تھاپھر داجی کی پوسٹنگ صوابی ہوگئی وہاں پر ہمارا گھر آبادی سے بہت دور کوٹہ گاؤں کے مضافات میں ٹاپان گاؤں کے قریب، ایک کالج، ایک ہاسٹل اور ایک ہمارا گھر باقی وہاں جو کچھ تھا وہ فطرت کی خوبصورتی، جنگلی جانور، سنگلاخ و آدھ صحرائی خشک علاقہ۔ رمضان بہت سادگی سے گزرتا تھا، امی جو کچھ پکا لیتی تھیں وہ ہم لوگ بہت شوق سے کھالیتے تھے۔ نماز داجی کے ساتھ ہاسٹل میں پڑھتے اور جمعہ پڑھنے کیلئے دوسرے گاؤں "مینے" کئی میل پیدل راستہ طے کرکے جاتے تھے۔ اُن کچے پکے راستوں اور پگڈنڈیوں پر سفر میں ابھی تک نہیں بھولا۔ پھر جب پشاور آئے تب میں پانچویں کلاس میں تھا۔ یہاں پر پھر شہر کے مطابق سب کچھ ہونے لگا، امی طرح طرح کی پکوان بناتی تھی، مجھے کوکب خواجہ بہت اچھی لگتی ہیں کیونکہ امی صبح اُن کا پروگرام دیکھتی تھی اور افطاری میں دسترخوان طرح طرح کے کھانوں سے سجتا۔ تراویح کیلئے مسجد جانے لگے اور دوستوں سے مل کر خوب شرارتیں کرتے۔ روزہ افطار کرنے کے بعد تراویح کی بڑی شدت سے انتظار رہتا، اس مغالطے میں نہ رہئے کہ عبادت کیلئے جاتے بلکہ تراویح کی آخری قطاروں میں کھڑے ہوکر خوب شرارتیں کرتے مگر خاموش زبان سے۔ کبھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ لیں، ایک دوسرے کے گریبانوں میں پیچھے سے پانی ڈال دیا، دھکے دینا اور سجدے میں ایک دوسرے کے ہاتھ کھینچنا تو عام سی بات تھی اور جب کسی ایک کی ہنسنے کی "کی کی" کی آواز نکلتی تو گویا سب بچوں کو کسی نے چابی دے دی اور پھر ایک نہ رکنے والا خاموش ہنسی کا سلسلہ شروع ہوجاتا جو مسجد کے ایک سرے سے شروع ہوکر دوسرے پر ختم ہوتا۔ پتہ نہیں بڑے کس صبر سے نماز پڑھتے مگر جیسے ہی سلام پھیرتے مسجد میں موجود چند لوگ مڑ کر بچوں کی وہ خبر لیتے کہ اللہ امان ہاں فائدہ اُن لڑکوں کو ہوتا جو مولوی صاحب کے سلام پھیرنے سے پہلے ہی رفو چکر ہوچکے ہوتے اور جو "بی بے" بچے (چچا مستنصر حسین تارڑ کے مطابق) اپنی رکعت پوری کرنے بیٹھے ہوتے اُن کی جو درگت بنتی وہ بس نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہوگا۔ تراویح میں ختم قرآن شریف کے موقع پر پوری مسجد کو برقی قمقموں سے سجالیا جاتا تھا، دیگ چڑھائے جاتے، کولڈ ڈرنکس اور چائے بنوائی جاتی، مٹھائی بانٹی جاتی بس عید سے پہلے عید کا سما ہوتا تھا۔ پھر سب کچھ بدل گیا۔ مسجد میں صراط مستقیم پر چلنے والے مولوی صاحب آگئے(سخت مزاج والے) تراویح میں "باں باں" بچوں پر تقریباً پابندی لگ گئی یا سخت ترین سزا، ختم قرآن کی تقریبات منسوخ، پھر ہم بھی بڑے ہوگئے اور اب۔۔۔
ایک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھیں ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب غم روزگار کے
بحکم عالی حضرت جناب شعیب صفدر بھائی اب میں اپنے دیگر پانچ دوستوں کو درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اپنے بچپن کے پہلے روزے کے متعلق کچھ تحریر کریں۔
My first fasting of ramazan/ramadan